Insaniyat ka Aakhri Sahara-انسانیت کا آخری سہارا

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَ‌بِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ (84/6)

ہزار جانکاہ مشقتوں کے بعد ہی سہی، لیکن انسان کو بالآخر اسی کی طرف آنا ہے!

 

انسانیت کا آخری سہارا

 

طلوعِ اسلام کنوینشن منعقدہ ۱۰۔۱۱۔۱۲ نومبر ۱۹۶۷ ء

میں

علّامہ غلام احمدپرویز

کا

آخری خطاب





بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

انسانیت کا آخری سہارا

چارہ این اسْت کہ از عِشق کشادےطلبیم

پیشِ ا ُو سَجدہ گذاریم و مُرادے طلبیم

صدرِمحترم و عزیزانِ گرامی قدر! سَلام و رحمت

قرآن کریم میں بیان کردہ قصّہ آدم کسی ایک فرد (یا جوڑے) کی داستان نہیں۔ وہ درحقیقت نوع انسان کی سمٹائی ہوئی تاریخ ہے جسے نہایت جاذب ودلکش تمثیل کے پیرایہ میں، بصیرت افروز و حقیقت کشا انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ اس تمثیل میں آدم اور اس کی رفیقہ، انسان (مرد اور عورت) کے نمائندے ہیں۔ ملائکہ فطرت کی قوتیں ہیں جہنیں مسخر کرلینے کی صلاحیت انسان کو ودیعت کردی گئی ہے۔ اور ابلیس اس کی مفاد پرستی کے بیباک جذبات ہیں جو خود اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ شیطان اور ابلیس ، ایک ہی سکّہ کے دو رُخ ہیں۔ شیطان، انسانی جذبات کی شعلہ مزاجی کا مظہر ہے (کہ اس لفظ کے بنیادی معنی یہی ہیں) اور ابلیس، اُس افسردگی اور مایوسی کا ترجمان ہے جو ہر اشتعال کا ردّ عمل ہوتا ہے۔ (ابلیس کے بنیادی معنی مایوسی کے ہیں) منظر اس داستان کا وہ دَور ہے جس میں پہلے پہل انسانی آبادی کی نمود ہوئی تھی۔ اس دور میں سامانِ زیست کی عام فراوانی تھی اور تمام انسان (جتنے کچھ بھی وہ تھے) ایک برادری کی حیثیت سے رہتے تھے۔ ( وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً 12/19 ان میں کوئی تفریق و تقسیم نہیں تھی۔ کوئی باہمی مخاصمت اور منازعت نہیں تھی، کسی قسم کے جھگڑے اور قضیے نہیں تھے۔ اس لیے کہ وہ لوگ ابھی ‘‘میری اور تیری’’ کی تمیز سے ناآشنا تھے۔ وہ ایک ایسی جنت کی زندگی تھی جس میں کیفیت یہ تھی کہ ۔۔۔ و َكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا ( 2/35 ) جس کا جہاں سے جی چاہتا، پیٹ بھر کر کھالیتا۔ اُس وقت، ارض، ۔۔۔ یعنی ذریعہ پیداوار ۔۔۔ کی حیثیت متاع کی تھی ( 2/36 ) یعنی استعمال کی شے، جس سے ہر ضرورتمند فائدہ اٹھا سکے لیکن وہ کسی کی ملکیت نہ ہو۔ وہ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ( 41/10 ) تھی۔ یعنی تمام ٖضرورتمندوں کے لیے یکساں طور پر کھلی۔ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا ( 17/20 ) ۔ اُس وقت،خدا کی بے مزدومعاوضہ عطا کردہ بخشائشوں پر نہ بند باندھے گئےتھے، نہ پھاٹک کھڑے کئے گئے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ تھا، کہ اس میں ہر انسان کو اس کا اطمینان حاصل تھا کہ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَ‌ىٰ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ ( 20/118-119 ) اسے نہ بھوک کا خوف ستاسکتا تھا، نہ پیاس کے متعلق کسی قسم کی پریشانی ہو سکتی تھی، نہ سکونت کے متعلق ۔ اُس زندگی میں انسان سے کہہ دیا گیا تھا کہ تم سب ایک خاندان کے افراد ہو اس لیے تم ایک برادری بن کر رہنا۔ وَلَا تَقْرَ‌بَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةَ ( 2/35 ) ۔ آپس میں مشاجرت اختیار نہ کرلینا۔ مشاجرت کے معنی ہیں ان چیزوں کا پھٹ کر الگ الگ ہوجانا جو اصل کے اعتبار سے (شجر کی طرح) ایک ہوں۔

 

ابلیس کا وسوسہ

آدم اس سکون و اطمینان اور اس وحدت و اشتراک کی زندگی بسر کر رہا تھا، کہ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ (20/120) اس کے دل میں انفرادی مفاد پرستی کے سرکش جذبات نے انگڑائی لی اور اس کے کان میں یہ افسوں پھونکا کہ تجھے دوسروں کی کیا پڑی ہے۔ تو اپنی اور اپنی اولاد کی پرورش کی فِکر کر۔ اس وسوسۂ شیطانی اور افسونِ ابلیسی کا نتیجہ یہ تھا کہ آدم کی وہ وحدت اور برادرانہ اشتراک کی زندگی ختم ہوگئی اور اس کی جگہ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ (20/123) کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یعنی باہمی عداوت اور معاندت کی کیفیت ۔۔۔ اَلْعِدٰی اُس لکڑی کو کہتے ہیں جو کسی لکڑی کو پھاڑ کر اُس کے دونوں حصوں کے درمیان (wedge) کے طور پر دے دی جاتی ہے کہ وہ آپس میں مِل نہ سکیں۔ اس اَلْعِدٰی سے ، پہلے یہ برادری ، خاندانوں میں تقسیم ہوئی۔ اور ایک خاندان دوسرے خاندان کا رقیب و حریف بن گیا۔ جب انفرادی طور پر خاندانوں نے اپنے مفادات کو غیر محفوظ پایا تو چند خاندانوں نے مل کر قبیلہ کی شکل اختیار کرلی۔ اب ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے مدِّ مقابل کھڑا ہوگیا۔ خود لفظ قبیلہ کے معنی ایک دوسرے کے مدِّ مقابل کے ہیں، اس طرح انسان ، اُس قدیم زندگی کو چھوڑ کر، جسے عصرِ حاضر، زمانۂ قبل از تمدن سے تعبیر کرتا ہے، دَورِ تہذیب و تمدن میں داخل ہوا۔ جوں جوں یہ اس تہذیبی دور میں آگے بڑھتا گیا، اس کی یہ گروہ بندیاںشدت اختیار کرتی گئیں، تاآنکہ اس تقسیم نے قبائل کی جگہ، اقوام (Nations) کی شکل اختیار کرلی۔ اسے انسان کی تمدنی زندگی کی معراج قرار دیا جا تا ہے۔

 

فساد انگیزیاں

اُس تمثیل میں ، فطرت کی قوتوں (ملائکہ) نے جب انسان کے انفرادی مفاد پرستی کے جذبہ اور اس سے پیدا شُدہ ‘‘میری اور تیری’’ کی تفریق پر نگاہ ڈالی تو کہا تھاکہ اس کے ہیولیٰ میں یہ دبی ہوئی چنگاریا ں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (2/30) یہ زمین میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا۔ چنانچہ اُس اولیں دور کے بعد، انسانیت کی ساری تاریخ (بجز چند لمحات کے) خون ریزیوں اور فساد انگیزیوں کا عبرت ناک مرقع اور جگر خراش داستان ہے، جس میں ایک فرد دوسرے فرد کے، ایک خاندان دوسرے خاندان کے، ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کے، اور ایک قوم دوسری قوم کے سامنے خنجر بدست (اور اس کے ساتھ ہی کفن بدوش) کھڑی ہے۔ اور یہ سب کاہے کے لیے؟ ۔۔۔ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْ‌بَىٰ مِنْ أُمَّةٍ (16/92) ۔۔۔ تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے زیادہ سلب و نہب (EXPLOITATION) کرسکے اوراس طرح اس پر بالا دست ہوجائے۔ قوموں کی اس باہمی مسابقت سے انسانیت کس جہنم سے گذر رہی ہے، اس کے متعلق میں ذرا آگے چل کر عرض کروں گا۔ پہلے یہ دیکھنا چاہیئےکہ یہ مفاد پرستیاں اُبھریں کیسے؟

 

فتنے کی بنیاد

زمین، ذریعہ پیداوار ہے، لیکن زمین کی کیفیت یہ ہے کہ۔۔ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (15/21) ۔۔ اس میں رزق کے خزانے مدفون ہیں، لیکن وہ خزانے ایک خاص اندازے اور پیمانے کے مطابق ہی باہر آتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ، زمین سے رزق حاصل کرنے کے لیے محنت درکار ہوتی ہےاور یہ رزق اس محنت کے تناسب سے حاصل ہوتا ہے ۔۔۔جتنی زیادہ محنت،اتنا ہی زیادہ حصول رزق۔ ظاہر ہے کہ جب انسان کی مشترکہ مفاد کی زندگی کی جگہ انفرادی مفاد اندوزی نے لی تھی تو اس میں سب سے زیادہ خوشحال اسے ہونا چاہیئے تھا جو سب سے زیادہ محنت کرے۔ لیکن ابلیس، یعنی انسان کی عقلِ فریب کار نے ، جو اس کے جذبات کی تسکین کے لیے اسباب و ذرائع تجویز کرتی اور اس کے ہر اقدام کے لیے وجوہِ جواز (Justificatory Reasons) تراشتی ہے، اس کے کان میں پھر افسوں پھونکا، اور اس سے کہا کہ میں تمہیں ایسی تدبیر بتاتی ہوں جس سے محنت دوسرے کریں اور تم آرام سے بیٹھے، سامانِ زیست سمیٹتے جاؤ، اس کے لیے اس نے ذرائع رزق پر ملکیت کا تصوّر دیا۔ اس تصوّر سے ہوس پرست انسان کی خوشی سے باچھیں کِھل گئیں۔ اس نے مختلف حیلہ جوئیوں، اور فریب انگیزیوں سے زمین پر لکیریں کھینچیں ۔ اور ایک حصّہ زمین کو اپنی ملکیت قرار دے کر دوسروں کو اس سے محروم کردیا۔ جب ان محرومین کی ذریعہ رزق تک رسائی نہ رہی، تو وہ مجبور ہوگئے کہ وہ مالکانِ اراضی کی مرضی کے مطابق محنت کریں اور ان کی دی ہوئی روٹی کھائیں۔ اس سے دنیا میں بیگار، یعنی غلامی کی لعنت کی بنیاد پڑی۔ اگر ایسا ہوتا کہ یہ محنت کش غلام، جس قدر کھاتے، اس سے کم (یا اتنا ہی) پیدا کرتے، تو یہ نظام زندہ نہ رہ سکتا۔ لیکن جتنا انہیں دیا جاتا تھا وہ اس سے زیادہ کماکر دیتے تھے۔ اس سے اس نظام کو استحکام حاصل ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ دن نوعِ انسانی کی تاریخ میں سب سے زیادہ منحوس تھا جب ایک مزدور نے اپنے مالک کو اس سے زیادہ کماکر دیا جتنا وہ کھاتا تھا۔ اس سے اُس ابلیسی نظام کو استواری نصیب ہوئی جس میں محنت کوئی کرتا ہے اور اس کا ما حصل کوئی اور لےجاتا ہے۔ نوعِ انسان کی، خاندانوں، قبیلوں اور قوموں کی تقسیم تمدنی اور سیاسی نوعیت کی تھی۔ لیکن اگر آپ بنظر تعمق دیکھیں، تو یہ حقیقت نمایاں طور پر سامنے آجائے گی کہ بنیادی طور پر انسان ، دو ہی طبقوں میں تقسیم ہواہے۔ ایک طبقہ محنت کرنے والا، اور دوسرا طبقہ اُ ن کی محنت کی کمائی پر پُر آسائش اندگی بسر کرنے والا۔ اس طبقہ کو قرآن، مترفین کہہ کر پکارتا ، اور نوعِ انسان کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے۔

 

دو گروہ

آپ تاریخ انسانیت پر نگاہ ڈالیے۔ اسلوب و انداز مختلف ہونگے، اسباب ذرائع متبائن ہوں گے، نقاب اور پیکر بھی متنوع ہوں گے۔ لیکن نوعِ انسان اصولی اور بنیادی طور پر انہی دو گروہوں میں منقسم دکھائی دے گی ۔۔۔ ایک گروہ محنت کشوں کا۔ دوسرا گروہ ان کی محنت کے ما حصل کو غصب کرنے والوں کا ۔۔۔ اس نظامِ معیشت و تمدن کی رُو سے، اصول یہ طے پایا ، کہ محنت کش کو صرف اتنا دیا جائے جس سے وہ محنت کرکے، کما کر دینے کے قابل رہے۔ اس سے زائد اس کے پاس کچھ نہ پہنچنے پائے۔ اور غاصبین کے پاس ان کی ضروریات سے فاضل دولت (Surplus Money) جمع ہوتی رہے۔ یہ فاضلہ دولت ، تمام فسادات کی جڑ ہے۔ اس سے یہ طبقہ اقتدار حاصل کرتا ہے، اور اس اقتدار کی رُو سے، محنت کشوں کو ان کی پست ترین سطح پر رکھنے پر مجبور کیے رکھتا ہے۔ آپ دیکھیں گے، کہ تاریخ انسانیت میں زمامِ اقتدار کبھی محنت کشوں کے ہاتھ میں نہیں آنے پائی۔ یہ ہمیشہ غاصبین کے قبضہ میں رہی ہے۔

 

قانون بھی انہی کا آلۂٔ کار ہے

اُس زمانہ میں جسے عصر حاضر، جہالت اور بربریت کا دور کہتا ہے، یہ اقتدار خالص طبیعی قوت (Physical Force) کے بل بوتے پر قائم رکھا جاتا تھا۔ دورتہذیب میں اِس قوت کو قانون کہہ کر پُکارا جاتا ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں کہ جو قانون ، غاصبینِ محنت کا وضع اور نافذ کردہ ہوگا، وہ کس کے مفاد کا تحفظ کرے گا؟ یہ قانون، چوروں، قزاقوں، رہزنوں کو مجرم قرار دے گا (تاکہ اِن غاصبین کی دولت محفوظ رہے، مزدور کے پاس ہوتا ہی کیا ہے جسے کوئی چُراکر لے جائے گا!) لیکن یہ قانون ان لوگوں کو کبھی مجرم قرار نہیں دے گا جو دوسروں کی کمائی کو دن رات لوٹتے رہتے ہیں۔ یہ جرائم کے انسداد کے لیے تدابیر اختیار کرے گا، لیکن جرائم کے محرکات اور اسباب و علل کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔۔۔اس لیے کہ یہ محرکات و اسباب تو خود اس قانون ساز سرمایہ دار طبقہ کے پیدا کردہ ہوتے ہیں ۔۔۔ اس نکتہ کی وضاحت اسلامی تاریخ کے اس واقعہ سے ہوسکے گی کہ ایک شخص کے ملازموں نے کسی کے کھیت سے غلّہ چراکر کھایا تو حضرت عمر ؓ نے اُنہیں سزا دینے کے بجائے ، اُن کے آقا کو سزا دی کیونکہ وہ انہیں پیٹ بھر کر کھانے کے لیے نہیں دیتا تھا اور اُنہوں نے بھوک سے مجبور ہوکر غلّہ چرا کر کھایا تھا۔ حضرت عمر ؓ کا یہ فیصلہ اُن کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ مبنی تھا قرآن کے اس اصول پر ، کہ اضطراری حالت میں ، بھوک مٹانے کی حد تک ، حرام کھانے کی بھی اجازت ہے۔ یہ تھا محرکاتِ جرائم کے انسداد کی طرف مؤثر اقدام ۔۔۔مستقل احتیاج ، پیہم احساسِ عدمِ تحفظ (Feelings of Insecurity) ، طبقاتی تفاوت کے پیدا کردہ امتیازات سے معاشرہ کے خلاف جذباتِ انتقام و نفرت ۔۔۔ قدم قدم پر مجروح ہونے والی انسانی خودی کا تخلیق کردہ احساسِ کمتری۔ اپنی مرضی اور اختیار کے بغیر غریبوں کے گھر میں جنم لینے کے گناہ، بلکہ یوں سمجھیے کہ دنیا میں آجانے کے جرم کی پاداش میں عمر بھر سزا بھگتنے کے احساس سے نظامِ عدل و انصاف کے خلاف جذباتِ بغاوت۔۔۔ احترام ِ آدمیت کی تمام راہیں بند ہوجانے سے، خود زندگی سے بیزاری ۔۔۔ یہ اور اسی قسم کے اور اسباب ہیں جو جرائم کے محرکات بنتے ہیں۔ دوسروں کی محنت کو غصب کرنے والا طبقہ ان محرکات کو روکنے کی تدبیر کس طرح کرے گا اور کیوں کرے گا؟ ایسا کرنے کے لیے انہیں سب سے پہلے اس نظام کو ختم کرنا ہوگا جس میں محنت کوئی کرتا ہے اور اس کا حاصل کوئی اور لے جاتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے انہیں خود اپنے بام بلند سے نیچے اُتر کر سطح آدمیت پر آنا پڑے گا۔ اس کے لیے انہیں خود کماکر کھانا پڑے گا۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ اپنی کمائی میں سے، انہیں بھی دینا پڑے گا جو کسی وجہ سے کمانے کے قابل نہ رہیں۔ یہ لوگ ایسا کیوں کریں گے، ان کی تو انتہائی کوشش یہی رہے گی کہ اُس نظام کی گرہیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں جس میں محنت کش کو سر اٹھا کر چلنے کی جرأ ت ہی نہ پڑے۔ لہٰذا ، ان لوگوں کے وضع کردہ قانون کی رُو سے وحدت و مساواتِ انسانیہ کیسے پیدا ہوسکے گی؟ اور اس قسم کے قانون کے مطابق فیصلوں کو میزانِ انسانیت میں عدل کیسے قرار دیا جاسکے گا؟

 

 

فلسفہ کے دلائل

لیکن ظاہر ہے کہ خالی دھاندلی اور دھونس سے، اپنے ہی جیسے انسانوں کے اس قدر گروہِ کثیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی گرفت میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کے لیے کچھ اور حربوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے لیے پہلے دانشوروں کا گروہ آگے بڑھتا ہے، اور عقلی دلائل سے ان زیر دستوں کو مطمئن کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کے لیے وہی مقام مناسب اور عین مطابق فطرت ہے جس پر انہیں رکھا جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ ارسطو کے ستّر غلام تھے اور وہ غلامی کے جواز میں ستّر دلیلیں دیا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ٹیڑھے پاؤں کے لیے ٹیڑھا جوتا ہی مناسب ہوتا ہے۔ اگر آپ اُسے سیدھا جوتا پہنادیں گےتوہ اس سے وہ دو قدم بھی نہیں چل سکے گا۔ یہ کیا ہے؟ عقلِ فریب کار کی حیلہ تراشیاں جس سے وہ محض ایک غلط مثال (یا تشبیہ) سے پیدا کردہ تصور کو زندگی کی مستقل قدر بنا کر دکھا دیتی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر مختلف صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں اس لیے معاشرہ میں ان کا مقام ، ان کی صلاحیتوں کے مطابق متعین ہونا چاہیئے۔ اگر کم صلاحیت والے کو اونچا مقام دے دیا گیا تو وہ ٹیڑھے پاؤں کو سیدھا جوتا پہنادینے کے مرادف ہوگا۔ یعنی ان غاصبین کا معاشرہ پہلے ایسا انتظام کرتاہے جس سے زیر دست طبقہ کی صلاحیتیں اُبھرنے ہی نہ پائیں ۔ اور اس کے بعد، اس اختلافِ صلاحیت کو طبقاتی تقسیم کے لیے بطورِ دلیل پیش کردیتا ہے۔ علم و حکمت کے ان اجارہ داروں سے کوئی پوچھے کہ اگر پیدائشی صلاحیتیں عمر بھر اپنی سطح پر جامد رہتی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، تو بلال حبشی، صہیب رومی، زید اور ان کے بیٹے اسامہ ( ؓ ) اور ان جیسے صدہا اور غلام، مزدور، محنت کش، جنہیں اُس زمانے کے معاشرے نے ہر قسم کی صلاحیتوں سے عاری اور ذلیل ترین مخلوق قرار دے رکھا تھا، چند دنوں کی صحیح تعلیم و تربیت سے کس طرح انسانی صلاحیتوں کے بلند ترین مظہر بن گئے تھے؟ اگر فطرت غلام کو پیدا ہی خدمت گذاری کے لیے کرتی ہے تو دنیا میں غلاموں نے سلطنتیں کس طرح قائم کر دکھائی تھیں؟

پھر یہی حکمتِ ابلیسی ایک قدم اور آگے بڑھتی ہے اور کہتی ہے کہ مختلف قسم کے کام کرنے والوں کی ضروریات بھی مختلف ہوتی ہیں اس لیے ہر ایک کو یکساں نہیں ملنا چاہیئے۔ ظاہر ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات اس کی طبیعی زندگی کے تقاضے پورے کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک انجنیئر کی طبیعی زندگی کے تقاضے، ایک مزدور کی زندگی سے مختلف ہوتے ہیں جو ان کے لیے سامانِ پرورش میں تفاوت بھی ناگزیر ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ہر فرد کے ذمے جو کام لگایا جائے گا، اس کام کے سر انجام دینے کے لیے، مختلف آلات و ادوات کی ضرورت ہوگی، لیکن اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ ان کی طبیعی ضروریات میں بھی فرق ہوگا۔ اگر ایک مزدور کو چائے کے ساتھ انڈے اور مکھن دے دیئےجا ئیں تو کیا ان سے اس کے پیٹ میں درد ہونے لگ جائے گا؟ اور اگر اس کے گھر میں بھی صوفہ سیٹ رکھ دیا جائے تو کیا اُسے اُس پر بیٹھنے سے سوئیاں چبھیں گی؟ قرآن کریم نے کہیں یہ نہیں کہا کہ اس میں کچھ لوگوں کو کھانے کو گوشت ، پھل، دودھ، شہد، بیٹھنے کو صوفے اور قالین ، اور پہننے کو حریرواطلس ملیں گے اور دوسرے لوگوں کو دال روٹی دی جائے گی جسے وہ پھونس کی جھونپڑی میں زمین پر بیٹھ کر کھائیں گے۔ وہاں اس قسم کی کوئی تفریق نہیں بتائ گئی۔ یہ جہنمی معاشرہ کا اسلوب و انداز ہے جس میں انسان اور انسان کی طبیعی ضروریات میں اس قدر تفاوت روا رکھا جاتا ہے، اور کام کی اُجرت، اس تفاوت کے پیشِ نظر متعین کی جاتی ہے۔ اسے (Living Wage) کہا جاتا ہے۔

 

اُجرتوں کا تعین

یہ اجرتوں کا تعین بھی، عزیزانِ من! عجیب گورکھ دھندا ہے، مزدور کی اجرت تین روپے روز ہوگی اور انجنیئر کی تیس روپے یومیہ۔ سوال یہ ہے کہ اس تین روپے اور تیس روپے یومیہ اُجرت مقرر کرنے کا معیار اور اصول کیا ہے؟ یہ معیار طلب و رسد (Supply and Demand) کا سوال ہے اور کیا؟ کارخانہ دار کو ایک ہزار مزدور اور ایک انجنیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ طبقہ انتظام ایسا کرتا ہے کہ ملک کی کثیر آبادی مزدوروں کے سوا کچھ اور بن نہ سکے۔ لہٰذا اس جنس کی رسد (Supply) طلب (Demand) سے زیادہ ہوتی ہے۔ بنا بریں مزدور کے لیے اس بات کے فیصلہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جو اجرت اسے پیش کی جاتی ہے وہ اُسے قبول کرے یا نہ کرے۔ وہ اس قدر ضرورت مند ہوتا ہے کہ اسے جو اُجرت بھی میسر آجائے ، اُسے غنیمت سمجھتا اور آجر کا شکر گذار ہو تا ہے کہ اس نے اسے رزق مہیا کردیا۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ یہ بڑی بڑی صنعتوں والے ، ملک کے سر احسان دھرتے ہیں کہ وہ اس قدر کثیر آبادی کے لیے رزق فراہم کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ ہیں عقلِ فسوں ساز کے وہ حیلے جن سے وہ نوعِ انسان کی اس تقسیم و تفریق کی جڑیں مضبوط کئے رکھتی ہے۔

اسی عقلِ فسوں ساز نے انسان کو ایک اور مغالطہ بھی دے رکھا ہے اور یہ وہ مغالطہ ہے جسے آغازِ تاریخ سے اس وقت تک، مشرق و مغرب میں ہر جگہ، ایک مسلّمہ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ وہ مغالطہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ ذاتی ملکیت اور زیادہ سے زیادہ انفرادی نفع اندوزی کے علاوہ کوئی اور جذبۂ محرکہ نہیں جو اسے زیادہ سے زیادہ کام پر آمادہ کرسکے۔ میں اپنے موضوع سے دور نکل جاؤں گا اگر اس نکتہ پر تفصیلی بحث کروں کہ انسان کی سرے سے کوئی فطرت ہی نہیں۔ فطرت تو مجبور اشیاء کی ہوتی ہے ۔۔۔ جیسے آگ کی فطرت حرارت پہنچانا ہے ۔۔۔ اور انسان صاحبِ اختیار و ارادہ ہے۔ صاحبِ اختیار و ارادہ کی فطرت کچھ نہیں ہوتی ۔ وہ اپنی مرضی کےمطابق فیصلے کرتا اور اپنے لیے آپ راہیں تراشتا ہے۔ لیکن اگر اسے صحیح تصور کرلیاجائے کہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ جس کام میں اسے ذاتی نفع نہ ہو، وہ اس کے لیے کوشش نہیں کرتا، تو آپ ایک حقیقت پر غور کیجیئے، ہم تاریخِ انسانیت میں ان افراد کی تعریف کرتےہیں، ان کی یادگاریں قائم کرتے ہیں، ان کے مجسمے نصب کرتے ہیں، انہیں نوعِ انسان کا محسن قراردیتے ہیں، جنہوں نے اپنے نفع کی خاطر نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر عمریں صرف کردیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ،جو تاریخِ انسانیت کے ممتاز ترین مقام پرفائز ہیں، کیا یہ سب خلافِ فطرت زندگی بسر کرتے تھے؟ اگر انسان کی فطرت کوئی چیز ہے (جسے فطرت نہیں بلکہ شرفِ انسانیت کہنا چاہیئے) تو اس کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کے لیے نہیں، عالمگیر انسانیت کے لیے جیے۔ صرف اپنے اور اپنی اولاد کے لیے جینا، حیوانی سطحِ زندگی ہے۔ دوسروں کے لیے جینے والا، انسان کہلانے کا مستحق ہے۔ حیوان اپنے لیے جیتا ہے، انسان دوسروں کے لیے جیتا ہے۔

بہر حال، میں کہہ یہ رہا تھا کہ دوسرے انسانوں پر اپنی گرفت محکم رکھنے کے لیے انسانی عقل نے عجیب عجیب دلائل تراشے ہیں اور زیردست طبقہ کو قسم قسم کے حربوں سے اپنے دامِ تزویر میں پھنسائے رکھنے کی کوشش کی ہے۔

 

اربابِ مذہب کی فریب دہی

لیکن، عزیزانِ من! عقل کی گرفت انسان کے دماغ پر ہوتی ہے، دل پر نہیں۔ اور دماغ پر گرفت کے ہر وقت ڈھیلا پڑجانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس قسم کے انسانیت کُش نظام، تنہا عقل کے زور پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتے۔ اس کے لیے انسانی جذبات کو اپنے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ خدمت ‘‘مذہب’’ سر انجام دیتا ہے۔ (یاد رکھئیے! میری مراد خدا کی طرف سے عطاکردہ دین سے نہیں، انسانوں کے خود ساختہ مذہب سے ہے۔) مذہب، کبھی اس زیردست طبقہ کے دل میں یہ عقیدہ راسخ کرتا ہے کہ ہر انسان کی پیدائش اس کے سابقہ جنم کے اعمال کے مطابق ہوتی ہے۔ اس اصول کے مطابق، برہمن، برہما کے سر سے پیدا ہوتا ہے، کھشتری اس کے بازؤوں سے، ویش اس کے پیٹ کی اور شودر اس کے پاؤں کی تخلیق ہوتا ہے۔ یہ تقسیم خود برہما کی قائم کردہ ہے جس میں کوئی انسان ردوبدل نہیں کرسکتا۔ اس تقسیم کے خلاف لب تک حرفِ شکایت لانا تو ایک طرف، دل میں شکوہ سنج ہونا بھی انسان کو مہا پاپی بنادیتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے مقام پر صابر و شاکر رہنا چاہیئے۔ کبھی وہ اس مظلوم و مقہور طبقہ کو اس فریب میں مبتلا کردیتا ہے کہ دنیا اور اس کی آسائشیں وہ دلدل ہیں جس میں پھنس کر انسانی روح کبھی خدا سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ اس لیے یہ تمام لذائذ و حظائظ قابل نفرت ہیں۔ دولتمند لوگ اس دنیا کی چند روزہ زندگی، آسائشوں میں گذار لیں، اس کے بعد، یہ جہنم کی آگ میں جُھلسائے جائیں گے۔ اور آسمان کی بادشاہت غریبوں کے حصے میں آئے گی۔ کبھی وہ انہیں اس عقیدہ میں مگن رکھتے ہیں کہ امیری اور غریبی، عزت اور ذلّت، پستی اور بلندی، رزق کی تنگی اور فراوانی، سب خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اسے ہر شخص کی پیدائش سے پہلے مقرر کردیا گیا ہے۔ مقدر کا بدل دینا کسی کے بس کی بات نہیں، انسان کو ہمیشہ راضی برضا رہنا چاہیئے۔ مرضی مولیٰ بر ہمہ اولیٰ۔ اس لیے تقدیر کے خلاف کسی کے لب پر حرفِ شکایت نہیں آنا چاہیئے۔ آپ غور کیجیئے تو تقدیر کا عقیدہ، ہندوؤں کے ورنوں کے عقیدہ سے بھی زیادہ غیر منطقی ہے۔ ورنوں کا عقیدہ خودساختہ ہی سہی، لیکن اس کے لیے ایک منطقی دلیل تو دی جاتی ہے۔ یعنی اس میں شودر سے یہ کہا جاتا ہےکہ تم جواس پستی کی حالت میں پیدا کئے گئے ہو،تو یہ ایشور کی دھاندلی نہیں۔ تم نے کرم ہی ایسے کئے تھے جن کے نتیجہ میں تمہیں اس قسم کا جنم مِلا۔ لیکن تقدیر کے لیے اتنی سی دلیل بھی نہیں دی جاتی، نہ دی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے کہا یہ جاتا ہے کہ خدا قادر مطلق ہے وہ جسے جس حالت میں چاہے رکھے۔ امیر ی اور غریبی، رزق کی بست و کشاد، پستی اور بلندی، سب اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اس کے لیے (معاذاللہ) نہ کوئی قاعدہ ہے ، نہ قانون۔ یہ یکسر اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ اس کے فیصلوں کے خلاف لب کشائی کرنا انسان کو جہنم رسید کردیتا ہے۔ یعنی اس میں انسانی سوچ اور فکر کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں رہنے دی جاتی ۔۔۔ یہ ہیں مکڑی کے وہ جالے جن میں مذہبی پیشوائیت، غریب انسانوں کو پھنسائے رکھتی ہے۔

وہ یہ کرتے ہیں اور سرمایہ دار طبقہ ان کے لیے جاگیریں مقرر کرتا اورجائیدادیں وقف کردیتا ہے۔ چنانچہ، محنت کرکے نہ یہ کھاتے ہیں اور نہ ہی ان کا سرپرست طبقہ ۔۔۔! جھونپڑیوں میں بسنے والا محنت کش اپنا خون پسینہ ایک کرکے ان سب کے محلات کی رنگینیوں کا سامان فراہم کرتا ہے۔ انہی کی محنت کی کمائی سے سرمایہ دار کے پاس فاضلہ دولت کے انبار لگ جاتے ہیں، اور مذہب کا مقدس اجارہ دار آگے بڑھ کی یہ فتویٰ دے دیتاہے کہ تم گھبراؤ نہیں، جس قدر جی چاہے دولت اکٹھی کرتے، اور جائیدادیں کھڑی کرتے جاؤ، تمہیں ایسا کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ:۔

جس طرح (اسلام) ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم زیادہ سے زیادہ اتنا روپیہ، اتنے مکان، اتنا تجارتی کاروبار، اتنے مویشی، اتنی موٹریں، اتنی کشتیاں اور اتنی فلاں چیز اور اتنی فلاں چیز رکھ سکتے ہو، اسی طرح وہ ہم سے یہ بھی نہیں کہتا کہ تم زیادہ سے زیادہ اتنے ایکڑ زمین کے مالک ہوسکتے ہو۔ پھر جس طرح وہ ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم صرف اسی تجارت یا صنعت یا دوسرے کاروبار کے مالک ہوسکتے ہو جسے تم براہ راست خود کرو اور جس طرح اس نے دنیا کے کسی معاملہ میں ہم پر یہ قید نہیں لگائی کہ تم کسی ایسے کام پر حقوق ملکیت نہیں رکھ سکتے جس کو تم اُجرت یا شرکت کے طریقہ پر دوسروں کے ذریعے سے کر رہے ہو، اسی طرح وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ زمین کا مالک بس وہی ہوسکتاہے جو اس میں خود کاشت کرے۔

(مسئلہ ملکیت زمین۔ از ابوالاعلیٰ مودودی صاحب۔ ص ۷۳ )

وہ اس قسم کے فتووں سے بالا دست طبقہ کو کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ دولت خدا کی دین ہے۔ وہ جس قدر جی چاہے سمیٹتے چلے جائیں۔ گویا دولت آسمان سے اولوں کی طرح برستی ہے جسے بچے جھولیاں بھر بھر کر سمیٹ سکتے ہیں۔ انہیں کون بتائے کہ دولت، محنت سے پیدا ہوتی ہے۔ اور وہ ایک روپیہ جسے مترفین کا طبقہ بلا محنت اپنی تجوری میں ڈالتا ہے، مزدور کے سینکڑوں قطراتِ خون کا منجمد فشردہ ہوتا ہے۔ کیا یہ مقامِ حیرت نہیں کہ یہ لوگ جانوروں کے خون کو تو حرام سمجھتے ہیں، لیکن انسانوں کے خون کو شیرِ مادر کی طرح حلال و طیب قرار دیتے ہیں۔

……………

 

اقوامِ غالب کی حشیش

یہاں تک میں نے، برادرانِ عزیز! تقسیم آدم کے اس حصے سے بحث کی ہے جو ایک قوم کے اندر وجۂ فسادِ آدمیت بنتا ہے۔ اب ہم، قوم کی حدود سے آگے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر جاتے ہیں۔ اس سطح پر اجمالی طور پر اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ جو کچھ بالا دست طبقہ، زیر دست طبقہ کے ساتھ ایک معاشرہ کے اندر کرتا ہے، وہی کچھ ایک بالا دست قوم، زیردست قوموں کے ساتھ کرتی ہے۔ ہمارے زمانے میں، بالا دست قومیں صنعت میں ترقی یافتہ ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ایک طرف ایسی قوموں کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں خام مال سپلائی کریں اور دوسری طرف ان منڈیوں کی جہاں ان کا تیار کردہ مال فرخت ہو۔ اس مقصد کے لیےان اقوام نے شروع میں، اِن پس ماندہ اقوام پر اپنا سیاسی تسلط براہِ راست قائم کیا او ر ان کے گھروں میں پہنچ کر چھاؤنیاں ڈال دیں۔ یہ دَور استعماریت (Colonisation) کا تھا۔ اس زمانے میں انہوں نے، ان پسماندہ اقوام کی عادات اس قدر بگاڑ دیں کہ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان اقوامِ غالب کی تیار کردہ مصنوعات کی محتاج ہوگئیں ۔۔۔ تہذیب کی فریب کارانہ زبان میں یوں کہا جائے گا کہ اُنہوں نے اِ ن کا معیارِ زیست بلند کردیا ۔۔۔ دوسری طرف انہیں اس قدر اپاہج بنادیا کہ وہ اب، وہ کچھ بھی اپنے ہاں تیار نہ کرسکیں جو کچھ وہ اس سے پہلے اپنے ہاتھوں سے تیار کرلیا کرتی تھیں۔ ان قوموں کو اس حالت تک پہنچاکر وہ اپنے ملکوں کو واپس چلی گئیں، اور میکیاولی سیاست کی زبان میں کہا گیا کہ انہوں نے انہیں آزادی عطا کردی ہےاور یہ، اِن اقوام ہی پر نہیں، عالم انسانیت پر ان کا احسان عظیم ہے۔ چونکہ ان میں کوئی قوم برداشت نہیں کرسکتی تھی کہ ان کی منذیوں میں کوئی دوسری قوم دخیل ہوسکے، اس لیے انہوں نے اِن منڈیوں کے ارد گرد اپنے فوجی اڈے مستحکم کرلیے اور زیر دست اقوام سےکہا کہ اس سے اُن کی حفاظت مقصود ہے۔ اس کے بعد، اِن اقوامِ غالب نے، پسماندہ اقوام کو مزید ‘‘مہذب’’ بنانے کے لیے، ان کے ہاں اپنی بڑی بڑی مشینیں نصب کردیں۔ یہ مشینیں دی تو گئیں قرض پر لیکن تعبیر کیا گیا اسے‘‘امداد’’ سے۔ ان مشینوںمیں جو کچھ تیار ہوتا ہے، ان کے کیمیاوی اجزا (Chemicals) سب اُنہی اقوامِ غالب کے ہاں سے منگانے پڑتے ہیں۔ نیز، اگر ان مشینوں کاایک پیچ بھی ٹوٹ جائے تو جب تک وہ ان کے سرچشمہ ملک سے نہ آئے، مشین بیکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس پروگرام کی رُو سے اِن اقوام کو سمجھایاگیا کہ وہ صنعتی ترقی کر رہی ہیں۔

پھر اِن اقوامِ غالب نے بساطِ سیاست پرایسے مہرے رکھے کہ یہ پست اقوام اپنی ہمسایہ اقوام سے ہمیشہ خائف رہیں اور اپنی حفاظت و مدافعت کے لیے اسلحہ کی محتاج۔ یہ اسلحہ انہی اقوامِ غالب کے ہاں سے مِل سکتا ہے۔ یہ قومیں ان پسماندہ اقوام کو، بلا لحاظ اس امر کے کہ ان میں سے کس کی ضرورت جائز ہے، اس طرح اسلحہ فراہم کرتی ہیں کہ ان میں سے کبھی ایک کا پلڑہ جُھک جائے، کبھی دوسری کا اور اس طرح اُن میں قوت کا عدم توازن جاری رہے۔ اس طرح اِن اقوام کی آمدنی کا بیشتر حصّہ، اسلحہ کی خرید کی نذر ہوجاتا ہے او ر انہیں روٹی تک بھی مانگ کر کھانی پڑتی ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ ان قوموں کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ

جاں بھی گروِغیر، بدن بھی گروِ غیر

 

سِکّہ کی دسیسہ کاریاں

فسادِ آدمیت کے لیے یہی حربے کچھ کم نہ تھے کہ انسانوں میں بعد و مغائرت کی خلیج کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے، عقلِ انسانی کی دسیسہ کاری نے سکّہ (Currency) کو بھی اپنا آلۂ ٔ کار بنایا۔ زمانۂ قدیم میں زندگی کی مختلف ضروریات کو پوراکرنے کے لیے بارٹر سسٹم (تبادلۂ اشیاء) کا رواج تھا۔ میرے پاس گندم ضرورت سے زائد ہے، آپ کے پاس شکر۔ میں نے آپ کو گندم دے دی اور اپنی ضرورت کے لیے شکر لے لی۔ اس سے ایک تو ہر ایک کی ضروریات پوری ہوتی رہتی تھیں اور دوسرے، دولت کسی ایک جگہ جمع نہیں ہونے پاتی تھی ۔۔۔ فالتو جنس کا زیادہ ڈھیرجمع کرکے، انسان کیا کرتا اور اسے کب تک محفوظ رکھ سکتا! جب آبادیان وسیع ہوئیں تو انسان نے مبادلۂ اشیاء کی سہولت کے غرض سے سکّہ ایجاد کیا۔ یہ بڑی مفید ایجاد تھی۔ لیکن جس طرح انسان کی ہوس پرستی نے دوسری مفید ایجادات کے غلط استعمال سے ان کی افادیت کو تباہی سے بدل دیا، یہی کچھ سکّے کے ساتھ ہوا۔ اس سے، جہاں تک افراد کا تعلق ہے، دولت کا بے حدوحساب اکتناز شروع ہو گیا۔ اور جہاں تک اقوام کا تعلق ہے، غالب اقوام نے تبادلۂ زر کے عیّارانہ اُلٹ پھیر سے سکّوں کی قیمتوں میں کچھ اس طرح کا تفاوت رکھا کہ پسماندہ اقوام کا روپیہ وہاں پہنچ کر چار آنہ رہ جائے۔ جہاں تک انسان اور انسان میں بُعد و مغائرت کا تعلق ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ آپ لندن کے بھرے بازار میں کھڑے ہوں اور ایک ہزار پاکستانی روپیہ آپ کی جیب میں ہو لیکن آپ وہاں سے ایک آنہ کی روٹی خرید کر نہیں کھاسکتے۔ وہاں آپ بھی اجنبی ہیں، آپ کی کرنسی بھی اجنبی ہے۔ کچھ سمجھے آپ؟ آپ انسانوں کی بھری بستی میں تنہا ہیں۔ آپ خود اپنی جنس کے اندر کھڑے غیر ہیں، بیگانہ ہیں، اجنبی ہیں۔ آپ اِس زمین کے رہنے والے نہیں، کسی آسمانی کُرّے سے ٹپک پڑے ہیں اور اس زمین کے رہنے والوں سے آپ کاکوئی رشتہ ناطہ، کوئی تعلق واسطہ، کوئی رابطہ ضابطہ نہیں۔ رنگ، نسل، وطن، زبان کا فرق تو پہلے ہی تھا، اب اس سکّے نے اس فہرست میں ایک اور کا اضافہ کیا ۔۔اور سخت اضافہ۔۔ کس قدر صحیح نقشہ کھینچا تھا اس ابلیسی معاشرہ کا قرآن نے جب کہا تھا کہ اِس میں انسان کی کیفیت یہ ہوگی کہ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ (90/15) وہ دوسرے انسانوں کے قریب ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو تنہا پائے گا۔

یہ ہے، عزیزانِ من! وہ مقام، جس پر انسانیت اس وقت کھڑی ہے۔ اس سے یہ کرۂ ارض انسانوں کی بستی نہیں رہا، ایک ایسا مذبح بن چکا ہے جس میں جسدِ انسانیت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھرا پڑا ہے۔ اور وہی نوعِ انسان جو کبھی ایک برادری تھی، اس کی کیفیت یہ ہے کہ يَوْمَ يَفِرُّ‌ الْمَرْ‌ءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (80/34-36) بھائی، بھائی سے الگ ہے، بیٹا ماں باپ سے جدا۔ میاں بیوی سے اور بیوی میاں سے بیگانہ۔ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (80/37) ہر ایک، اپنی اپنی مصبت میں اس طرح گرفتار کہ ایک کو دوسرے کی خبر تک نہیں۔

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوعِ انساں کو

قیامت ہے کہ انسان، نوعِ انسان کا شکاری ہے

 

 

اقوامِ عالم کی باہمی آویزش

قومیتوں کی اس تفریق سے پیدا شدہ نفسا نفسی اور افراتفری سے انسان کی حالت کیا ہوچکی ہے، اس کے متعلق ہم سے نہیں، خود ان اقوام سے پوچھیئے جو ابھی کل تک نیشنلزم کو خدا کی رحمت قرار دیا کرتی تھیں۔ سنیئے کہ اب انہی اقوام کے مفکرین اس عفریت کے ہاتھوں کس قدر نالاں ہیں۔ لندن یونیورسٹی کا پروفیسر، الفریڈ کوبن، اپنی کتاب (The Crisis of Civilisation) میں لکھتا ہے۔

قومیت پرستی کا احساس نفرت سے پیدا ہوتا ہے اور عداوت پر پرورش پاتا ہے۔ ایک قوم کو اپنی ہستی کا احساس ہی اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی دوسری قوم سےمتصادم ہو۔ پھر، ان اقوام کا جذبۂ عداوت و پیکار اپنی قومی وحدت کی تکمیل پر ہی ختم نہیں ہوجاتا۔ جونہی کوئی قوم اپنے حق خود مختاری کو مستحکم کرلیتی ہے، تو اُن اقوام کو دبانا شروع کر دیتی ہے جو اپنے لیے حق خود مختاری مانگتی ہوں۔ (صفحہ ۱۶۶)

برٹرینڈ رسل اپنی کتاب (The Hope for a Changing World) میں لکھتا ہے۔

ہمارے زمانے میں جو چیز معاشرتی روابط کو قومی حدود سے آگے بڑھانے میں مانع ہے،وہ نیشنلزم ہے ۔ اس لیے نیشنلزم، نوعِ انسان کی تباہی کے لیے سب سے بڑی قوت ہے۔ پھر تماشہ یہ ہے کہ ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ دوسرے ملکوں کی نیشنلزم بڑی خراب چیز ہے لیکن اس کے اپنے وطن کی نیشنلزم بہت اچھی ہے۔

ہمارے زمانےمیں نیشنلزم کی حیثیت ایک سیاسی نظریہ ہی کی نہیں رہی۔ اس نے ایک مذہبی عقیدہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ آلڈس ہکسلے کے الفاظ میں:

نیشنلزم ایک بُت پرستانہ اور مشرکانہ مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایسا مذہب جو فساد اور تفریقِ انسانیت کے لیے ایسا طاقتور ہے کہ کوئی توحید پرست مذہب فلاح اور وحدتِ انسانیت کے لیے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نیشنلزم یا نسل پرستی کا جذبہ بالکل پاگلوں کا مسلک ہے۔

(The Perennial Philosophy)

اس نیشنلزم نے انسان اور انسان میں کس حد تک مغائرت پیدا کر رکھی ہے ، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس وقت امریکہ کا شمار دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پسماندہ ممالک کے لیے اس کی ‘‘امداد’’ نے (جس کی نقاب کشائی میں ابھی کرچکا ہوں) ساری دنیا میں اس کے جذبۂ ہمدردیٔ نوعِ انسان کی دھاک بٹھا رکھی ہے۔ لیکن یہ اُس امریکہ کی بات ہے جو اُس خطۂ زمین کے شمال میں واقع ہے۔ اسی امریکہ سے ایک قدم کے فاصلے پر جنوبی امریکہ ہے۔ اس کی حالت کیا ہے، اس کا اندازہ چند اعداووشمار سے لگایا جاسکتا ہے جنہیں (Felix Green) نے اپنی کتاب ( A Curtain of Ignorance ) میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

لاطینی امریکہ کی بیس کروڑ آبادی کا دسواں حصہ بھی ایسا نہیں ہوگا جسے پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو۔ رائیوڈی جنیرو، بیونس آئرس اور میکسیکو جیسے چند شہروں کو چھوڑ کر باقی علاقہ کی حالت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، غلاظت کے ڈھیروں پر پڑے ہوئے روٹی کے ٹکڑوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور ان کے ماں باپ بیس سینٹ روزانہ کی اجرت پر دن بھر محنت و مشقت کرتے ہیں۔

خود اس ملک کےاندر طبقاتی تقسیم کا یہ عالم ہے کہ ملک کی کل آمدنی کا آدھا حصہ چلی کی آبادی کے دسویں حصہ کی تجوری میں چلا جاتا ہے اور نصف آمدنی باقی نوّے فیصد آبادی کے حصہ میں آتی ہے۔ فلپائن کی یہ حالت ہے کہ وہاں کی آبادی کے قریب ۸۶ فیصد حصہ کو بمشکل ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے اور وہاں کے بچوں کی بیس سے چالیس فیصد تعداد، ایک سال کے اندر اندر مرجاتی ہے۔ یہ ہے اس امریکہ کے ہمسایہ ممالک کی حالت جس کی کشادہ ظرفی اور بنی نوعِ انسان کے لیے جذبۂ خیر سگالی کا ڈھنڈورا اس شدومد سے پیٹا جاتا ہے۔

آپ نے دیکھا، عزیزانِ من! کہ وہ جو قرآنِ کریم نےکہا تھا کہ تم نے اشتراکِ باہمی کی زندگی کو چھوڑا تو تم ایک دوسرے کے دشمن بن جاؤگےاور تم میں wedges حائل ہوجائینگی وہ کتنی بڑی حقیقت تھی۔ اقبال کے الفاظ میں، اس سے حالت یہ ہوگئی ہے کہ

زیرِ گردوں آدم، آدم را خورد

مِلّتے بر مِلّتے دیگر چرد

 

انسان کی اپنی حالت

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک قوائے فطرت کی تسخیر کا تعلق ہے، دنیا جس مقام پر گذشتہ پچاس سال میں پہنچ گئی ہے، اس سے پہلے کی چھ ہزار سال کی مجموعی ترقی اس کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکی تھی۔ لیکن علم و ہنر کی اس قدر ثریّا بوس رفعت اور حدود فراموش وسعت کے باوجود، انسانوں کی اس عظیم بستی کی کیا حالت ہے جسے زمین کہا جاتا ہے۔ اس کے متعلق مشہور ماہر علم النفس ، ڈاکٹر ینگؔ (Jung) کا ایک فقرہ دہرا دینا کافی ہوگا جو اس نے اپنی مشہور کتاب (Modern Man in Search of a Soul) میں لکھا تھا۔ اس نے کہا تھا۔

آج کرۂ ارض کی عظیم شاہراہوں پر ہر شے ویران، اداس، اور فرسودہ نظر آتی ہے۔

یہ بات اس نے ۱۹۳۱ء؁ میں کہی تھی۔ اگر ینگؔ آج زندہ ہوتا تو ان شاہراہوں کی موجودہ ویرانیوں کو دیکھ کر نمعلوم کیا کہتا۔ وہی کچھ کہتا جو چند سال اُدھر، امریکہ کے دو صحافیوں نے اپنے ملک کی تمدنی اور معاشرتی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ اور جو کچھ انہوں نے کہا تھا، وہ ان کی کتاب کا ٹائیٹل پکار پکار کر کہہ رہا تھا۔ کتاب تھی، اہلِ امریکہ کے متعلق اور اس کا ٹائیٹل تھا:

The Lonely Crowd

برادرنِ عزیز! کیا انسانی معاشرہ کی اس سے زیادہ عبرت انگیز تصویر کوئی اور بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ایک ایسا ہجوم ہے جس میں ہر فرد اپنے آپ کو تنہا پاتا ہے۔ اور پھر انسان کی بے بسی کا عالم یہ کہ وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے لیکن اس جہنم سے نکلنے کا کوئی راستہ اسے دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ

عِشق نا پید و خرد می گزدش صورتِ مار

عقل کو تابعِ فرمانِ نظر کر نہ سکا

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتا ر کیا

زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

 

انسان کس قسم کی دنیا چاہتا ہے؟

اِس وقت دنیا کا حساس طبقہ اپنی موجودہ حالت کی وجہ سے سخت مضطرب و بیقرار ہے۔ وہ ہزار جان سے چاہتا ہےکہ کسی طرح یہ دنیا ایک اور دنیا میں بدل جائے۔ اُس دنیا کا کس قسم کا نقشہ اس کے ذہن (یا یوں کہیئےکہ اُن کے خوابوں) میں آتا ہے؟ اس کے متعلق خود اُنہی کے الفاظ میں سنیئے۔ کیتھولک چرچ کا راندۂ درگاس اُسقف (Teilhard de Chardin) ۔۔ جس کی کتابوں کو کلیسا نے اس کی زندگی میں شائع نہیں ہونے دیا تھا ، اپنی کتاب ‘تعمیرِارض’ (Building the Earth) میں لکھتا ہے:

اب اقوام کا زمانہ گزرچکا ہے۔ اگر ہم نے ہلاکت سے بچنا ہے تو کرنے کا کام صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنے قدیم تعصبات کو ختم کریں اور (مختلف ملکوں اور خِطوں کی حدود سے آگے بڑھ کر) خودکرۂ ارض کی تعمیرِ نو کا انتظام کریں۔ انسان کو اس کی موجودہ پستی سے اچھال کر بلندیوں کی طرف لے جانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے، وحدتِ انسانیت کا راستہ۔ اب شعورِ انسانی کے لیے ضروری ہے کہ وہ خاندان، وطن اور نسل کی تنگ ناؤں سے آگے بڑھ کر، پوری نوعِ انسان کو اپنی آغوش میں لے لے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کا پروفیسر Hugh Miller اپنی کتاب The Community of Man میں لکھتا ہے کہ:

تہذیب کا فریضہ ہے کہ وہ پھر سے اس انسانی برادری کا احیاء کرے جو انسانی زندگی کی ابتدا میں موجود تھی لیکن بعد میں عارضی طور پر خاندانوں، قبیلوں اور نسلوں میں بٹ گئی۔ تہذیب کہا ہی اُسے جاسکتا ہے جو انسانوں کو باہمدگر جوڑے۔ انسانی ارتقاء کا اگلا قدم ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل ہونا چاہیئے جو تمام نوعِ انسان پر مشتمل ہو۔

مشہور امریکی مفکر Lewis Mumford لکھتا ہے کہ ‘‘تہذیب در حقیقت اس عملِ پیہم اور غیر مختتم کا نام ہے جو ایک دنیا اور ایک انسانی برادری کی تشکیل کرے’’۔ وہ آگے چل کر کہتا ہے۔

اگر ہم نے اس عملی وحدت کو مزید التوا میں رکھا تو اس کا نتیجہ عالمگیر تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ مغربی اندازِ معاشرت کا کھیل کھیلا جاچکا ہے اور یہ تمدن بُری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ ……. اب دنیا کو ایک ایسے بطلِ جلیل کی ضرورت ہے جو اُس کلچر اور تاریخ کی تمام حدود کو توڑ دے جنہوں نے انسان کو اپنے اندر قید کر رکھا ہے اور اس طرح اُس کی نشوونما کے راستے میں بُری طرح حائل ہورہی ہیں ۔۔۔ اس بطلِ جلیل کی ضرورت جو کاروانِ انسانیت کو موجودہ تباہی کے ویرانوں سے نکال کر، وحدتِ انسانیت کے عالمگیر نظام کی طرف لے جائے ۔ (Transformation of Man)

جولین ہکسلے ؔ کہتا ہے کہ دنیا کی موجودہ مختلف حکومتوں کی جگہ ایک عالمگیر واحد حکومت کا قیام، نوعِ انسان کو تباہی سے بچا سکتاہے On Living in a Revolution ۔ اس عالمگیر وحدتِ انسانیہ اور وحدتِ نظامِ حکومت کے تحت جو نئی دنیا وجود میں آئے گی وہ کس قسم کی ہوگی، اس کا نقشہ، سویڈن کا ماہرِ معاشیات Gunner Myrdal ان الفاظ میں کھینچتا ہے۔

یہ وہ دنیا ہوگی جس میں انسان ، ہر مقام پر خود اپنی مرضی کے مطابق اپنے لیے کام اور اندازِ زیست کا انتخاب کرے گا۔ اور اس میں معاوضہ اس محنت کا ملے گا جس سے کچھ تخلیق ہو، اور یہ معاوضہ نسل اور کلچر کی تمیز کے بغیر سب کے لیے یکساں ہوگا۔ یہ وہ دنیا ہوگی جس میں سرمایہ اور محنت، انسانی ضرورتوں کے مطابق اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر منتقل ہوتا رہے گا۔ اور اس میں دنیا کے تمام ممالک اور تمام افراد کو اُن کی صلاحیتوں کی نشو و نما کے لیے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔ جب تک دنیا کی یہ حالت رہے گی کہ اس کی نصف آبادی دولت مند اور باقی نصف مفلس رہے، کوئی عالمگیر معاشی نظام وجود میں نہیں آسکے گا۔

جیسا کہ میں نے ابھی ابھی کہا ہے، یہ صاحب سویڈن کے ماہرمعاشیات ہیں۔ اور سویڈن وہ ملک ہے جہاں کی فلاحی مملکت دنیا میں سب سے آگے سمجھی جاتی ہے۔ اس فلاحی مملکت کے ماہر معاشیات نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ہے Beyond the Welfare State ۔ یعنی اس ماہر معاشیات کے نزدیک، فلاحی مملکت بھی نوعِ انسان کے اس بنیادی مسئلہ کا حل نہیں۔ اس کا حل، اس سے بھی کہیں آگے جا کر ملے گا۔ آگے چل کر یہ مصنف لکھتا ہے:

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے یہ بلند مقاصد اسی صورت میں حاصل ہو سکیں گے جب ایک ایسی دنیا وجود میں آجائے جس میں نہ کرۂ ارض کے نقشےپر کھینچی ہوئی ممالک کی لکیریں ہوں، اور نہ ہی قوموں کے خود وضع کردہ حدود۔ یہ وہ دنیا ہوگی جہاں انسان جہاں جی چاہے آزادانہ چلے پھرے، رہے سہے، اور ہر جگہ یکساں شرائط پر اپنے لیے حصولِ مسرت کر سکے۔ سیاسی طور پر اس سے مراد تمام دنیا کی واحد حکومت ہوگی، اور جمہوری طور پر یہ تمام انسانوں کے باہمی مشورہ سے اپنا کاروبار سر انجام دے گی۔ ہم اپنی روح کے مذہبی نشیمن میں کسی اسی قسم کی حسین دنیا کا تصور محسوس کرتے ہیں جس میں کامل ہم آہنگی اور یکجہتی ہو۔

‘‘انسانی روح کے مذہبی نشیمن’’ میں اس قسم کی حسین دنیا کا تصور تو اب عام طور پر کیا جانے لگا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ حسین خواب محسوس تعبیر کا پیکر کس طرح اختیار کرے۔ جہاں تک مختلف مذاہب کا تعلق ہے، دُنیا ان سے مایوس ہوچکی ہے۔ کس حد تک مایوس، اس کے متعلق پروفیسر William Ernst Hocking اپنی کتاب Living Religions and World-Faith میں لکھتا ہے۔

یہ تمام مذاہب ٹوٹی پھوٹی کشتیاں ہیں (جنہیں حوادثِ زمانہ کے طوفانوں نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ساحل پر پھینک دیا ہے)۔ یہ سب اپنے اپنے تقدس کی چادروں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اطمینانِ خویش نے (جو درحقیقت فریب نفس کا دوسرا نام ہے) ان کے متبعین کی آنکھوں میں دھول جھونک رکھی ہے (جس کی وجہ سے انہیں حقیقت نظر نہیں آسکتی)۔ ان کے عقائدونظریات کے زنگ نے ان کے (افکار و عمل کے) قبضوں کو اس قدر جام کردیا ہے کہ ان میں اب حرکت کی صلاحیت ہی نہیں رہی۔ یہ لوگ قدامت پرستوں کے کوڑوں کے تصور سے اس قدر ڈرے اور سہمے رہتے ہیں کہ ان میں بہت کم ایسے ہیں جو سمجھ اور سوچ سے کام لینے کی جرآت کرسکیں۔

 

مذہب کیسا ہو؟

دنیا کا انسان ان مذاہب سے مایوس ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے دروازہ پھر مذہب ہی کا کھٹکھٹاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ (لارڈ Morley کے الفاظ میں) یہ حل ایسا مذہب پیش کرسکے گا

جس کی دعوت تمام نوعِ انسان کے لیےہو

Erich Fromm کا خیال ہے کہ زمانے کے تقاضے کہہ رہے ہیں کہ آئندہ چند صدیو ں میں ایک ایسے مذہب کی نمود ہوگی جو

انسان کی ارتقائی منازل کا ساتھ دے گا۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ عالمگیر ہوگا اور منتشر انسانیت کو ایک وحدت میں منسلک کردے گا۔ جو مشرق و مغرب کے تمام مذاہب کی تعلیم کا مہیمن ہوگا۔ وہ عقل و بصیرت پر مبنی ایسا قابلِ عمل ضابطۂ اخلاق دے گا جو علوم سائنس سے ہم آہنگ ہو۔ وہ انسان کو اس قابل بنادے گا کہ وہ خارجی کائنات اور خود اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ رہ سکے۔ اسی کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ نوعِ انسان کا مذہب بن سکے۔

(The Sane Society)

ممفورڈ کا خیال ہے کہ س قسم کا مذہب (حضرت ) عیسیٰؑ اور (حضرت) محمدؐ جیسی شخصیتیں دے سکتی ہیں۔ وہ شخصیتیں کہ زمانے کا بحران ان کی تخلیقی نگاہ کو ایک عظیم انقلا ب سے ہم آہنگ کردے اور وہ اس قابل ہوں کہ نوعِ انسان کی صفوں میں ایک عالمگیر انقلاب برپا کر سکیں۔

(The Transformation of Man)

……………………. o …………………….

عزیزانِ من! آپ نے دیکھا کہ عصرِ حاضر کا خود گزیدہ انسان، اپنے دُکھوں کے مداوا کے لیے کس مقام پر پہنچا ہے اور اس کی نگۂ تجسس اسےکس چشمۂ زندگی کا سراغ دے رہی ہے۔ (نوعِ انسان کی موجودہ مرگ آفریں زندگی کو حیاتِ جاوید میں بدلنے والا انقلاب، یقیناً عیسیٰؑ اور محمدؐ جیسی ہستیاں ہی برپا کرسکتی ہیں۔ لیکن دنیا میں اس وقت نہ تو خود (حضرت) عیسیٰؑ موجود ہیں اورنہ ہی (حضرت) محمدؐ۔ اس لیے انسان کو لامحالہ ان کے دئیے ہوئے پیغام ہی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ جہاں تک حضرت عیسیٰؑ کا تعلق ہے، ان کا لایا ہوا پیغام اس وقت اپنی اصلی شکل میں دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اور جس پیغام کو ان کی طرف منسوب کیا جا تا ہے اس سے انسان پہلے ہی مایوس ہوچکا ہے۔ اس کے متعلق (مثلاً) جرمن ہیومنسٹ فلاسفر Gerhard Szczesny لکھتا ہے۔

عیسائیت صحرا نوردوں کا مذہب بن سکتی ہے۔ بنیادی طور پر اس کا پیغام ثنویت (Dualism) کی تعلیم دیتا ہے۔ جو فلسفہ اور سائنس کا ساتھ دے ہی نہیں سکتی۔ دو ہزار سال سے اس نے علم اور سائنس کی گاڑی کو بریک لگا رکھی ہے۔

(The Future of Unbelief)

پروفیسرجوڈ ؔ لکھتا ہے:

عیسائیت کی رُو سے اندگی کا حقیقی مسکن یہ دنیا نہیں بلکہ آنے والی دنیا ہے۔ یہ دنیا محض عبوری حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقی دنیا بعد کی دنیا ہے۔ اس کے برعکس یہ دنیا شر اور فساد کی دنیا ہے۔ اس میں کوئی شے بالکل خیر اور طیب نہیں۔

(Guide to the Philosophy of Morals and Politics)

مشہور مفکر پرو فیسر وہائٹ ہیڈ لکھتا ہے۔

انجیل میں جس قسم کا اخلاقی ضابطہ دیا گیا ہے اگر اسے موجودہ زمانے میں نافذ کردیا جائے تو اس کا نتیجہ فوری موت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ (Adventure of Ideas)

اس تجزیہ کے بعد ہمارے سامنے عزیزانِ من! صرف (حضرت) محمدؐ کا لایاہوا پیغام رہ جاتا ہے۔ اس کی پہلی خصو صیت یہ ہے کہ وہ حرفاً حرفاً اپنی اصل شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ جس وحدتِ انسانیت کے لیے اس وقت دنیا کے مفکرین اس قدر مضطرب و بیقرار ہیں اور انسانی معاشرہ کا جو نقشہ وہ اپنے خوابوں میں دیکھ رہے ہیں، محمدؐ کا لایا ہوا پیغام، اُن کی اِن حسین آرزؤں کو پورا کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے یا نہیں۔ اور اگر اس کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے حصول و قیام کے لیے کوئی ممکن العمل پروگرام بھی دیتا ہے یا یونہی نظری تصورات ہی پیش کردیتا ہے۔ یہ مقام خاص توجہ کا مستحق ہے۔ میں اس سلسلے میں اتنا عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پیغام کو میں اس لیے پیش نہیں کر رہا ہوں کہ میں خود اس کی صداقت اور محکمیت کا قائل ہوں ۔ میں اسے اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ (جیسا کہ آپ نے دیکھ لیا) حالات کے تجزیہ نے ہمیں خود اس مقام تک پہنچادیا ہے جہاں ہمیں اس پیغام پر غوروفکر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں رہا۔ یہ میری پیشکش نہیں، دنیا کے مفکرین کا بیتابانہ مطالبہ ہے جسے پورا کرنے کے لیے میں اپنا فریضہ سمجھتاہوں کہ اسے بے کم و کاست، اور بلا تبصرہ و تقریظ ان کے سامنے پیش کردوں اور یہ فیصلہ ان پر چھوڑدوں کہ اس پیغام میں دنیا کی مشکلات کا حل موجود ہے یا نہیں۔ وما توفیقی الّا باللّٰہ العلی العظیم ۔

……………………. o …………………….

 

قرآن کا پیش کردہ نظام

قرآنِ کریم نے قصّہ آدم کے سلسلہ میں جہاں کہا تھا کہ تم نے جو انفرادی مفاد پرستی کی زندگی اختیار کی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم میں پھوٹ پڑجائے گی اور تم ایک دوسرے کے دشمن ہوجاؤگے۔ تو اس سے لازماً یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا انسان کی یہ حالت ابدی ہوگی؟ کیا وہ اِس نفسانفسی کی قیامت خیزی اور تشتت و انتشار کے جہنم سے کبھی نکل نہیں سکے گا؟ عیسائیت نے ہبوطِ آدم (Fall) سے یہی عقیدہ پیدا کیا تھاکہ انسان اس پستی سے اپنی سعی و کاوش سے نکل ہی نہیں سکے گا۔ وہ ابدی طور پر راندۂ درگاہ ہوگیا۔ لیکن قرآن نے کہا کہ نہیں۔ ایسا نہیں۔ ابدی مایوسی شرفِ انسانیت کے منافی ہے۔ انسان پھر سے اپنے فردوسِ گم گشتہ کو پاسکتا ہے۔ اس کے لیے خود خدا اس کی مدد کرے گا۔ اسے اس کی طرف سے راہ نمائی مِلے گی ۔ فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (2/38) جوکوئی اُس راہ نمائی کا اتباع کرےگا تو اُسے کسی قسم کا خوف و حزن نہیں ہوگا۔ یہ راہ نمائی رسولوں کے ذریعہ بھیجی گئی ۔ رسولوں کی بعثت سے مقصد کیا تھا، غور سے سنیئے کہ قرآنِ کریم اس کے متعلق کیا کہتا ہے، وہ کہتا ہے کہ ۔۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (2/213) ۔ چونکہ مقصود یہ تھا کہ تمام نوعِ انسان ایک عالمگیر برادری بن کر رہےاس لیے خدا نے انبیاء کو مبعوث کیا۔ وہ لوگوں کو متنبہ کرتے تھے کہ اگر انہوں نے انفرادی مفاد پرستی کی روش کو نہ چھوڑا تو اس کا نتیجہ تباہی اور بربادی ہوگا۔ اور اگر وہ ایک برادری کی حیثیت سے رہے، تو وہ خوشگواریوں کے جھولے جھولیں گے ۔ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۔ اور ان کے ساتھ ضوابط و قوانین بھی بھیجے جاتے رہے تاکہ اُن کی رُو سے، اُن امور کے حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جاسکیں جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں اور جن کی وجہ سے اُن میں گروہ بندیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ تمام انبیاء کرامؑ کی دعوت یہی تھی اور سب کا مقصود و منتہیٰ یہی۔ لیکن عہدِ قدیم میں چونکہ وسائلِ رسل و رسائل اور سامانِ مواصلات بہت محدود ہوتے تھے اس لیے اُن حضرات کی دعوت ان کے علاقوں کے اندر محدود ہو کر رہ جاتی تھی اور تمام نوعِ انسان کو امتِ واحدہ بنانے کا پروگرام عالمگیر نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ اپنے حیطۂ اثر کے علاقوں میں بسنے والوں لوگوں کو، خاندان، قبیلہ، نسل کے امتیازات سے بلند کرکے، خالص انسانیت کی بنیادوں پر ایک مشترک برادری کی تشکیل کرتے تھے ۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیتےوہ ایک برادری کے افراد بن جاتے تھے۔ جو اس کی مخالفت کرکے، طبقاتی تفریق کی گرہوں کو مستحکم رکھنا چاہتے تھے وہ فریقِ مخالف قرار پاتے تھے۔ یہی بنیادی طور پر کفر و اسلام کا امتیاز تھا۔ قرآنِ کریم، اس فریقِ مخالف کو مترفین یعنی سرمایہ داروں کا گروہ کہہ کر پکارتا ہے جن کی تائید وحمایت مذہبی اجارہ داروں کی طرف سے ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہےکہ قرآن، سردارانِ قوم اور مذہبی پیشواؤں کو ایک ہی زمرہ میں شمار کرتا ہے۔ اس کے نزدیک فرعون، ہامان اور قارون ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔۔ آسمانی رشدوہدایت کی ساری تاریخ انہی دو گروہوں کے باہمی تصادم و تزاحم کی داستان ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تا آنکہ جب انسانیت کے سنِ بلوغ کو پہنچنے کا زمانہ آگیا تو خدا کی طرف سے آخری نبی آیا۔ اور اپنے ساتھ وہ ضابطۂ ہدایت لایا جس میں اس مقصد کے حصول کا مکمل پروگرام دیا گیا تھا۔ اس رسولؐ نے آکر اعلان کیا کہ ۔۔۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (7/158) اے نوعِ انسان میں تم سب کی طرف خدا کا پیغامبر ہوں۔ آپ نے غور فرمایا کہ اس خطاب میں کس طرح انسانوں کی خود ساختہ حدودو ثغورسے بلند ہوکر عالمگیر انسانیت کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ کچھ اپنے متعلق کہااور اپنے پیغام کے متعلق اعلان کیاکہ ۔۔۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ (10/57) ۔ اے ساری دنیا میں بسنے والے انسانو! تمہارے نشوونما دینے والے کی طرف سے ایک ضابطۂ ہدایت آگیا ہے جو تمہارے نفسیاتی امراض کا علاج اپنے اندر کھتا ہے۔ ہوس زر پرستی ایک نفسیاتی مرض ہے، اِسی لیے قرآن کو اس مرض کے لیے نسخۂ شفا کہا گیاہے۔ اس سے ذرا آگے چل کر کہا ۔۔۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ (10/108) ۔ اے نوعِ انسان! تمہارے نشوونما دینے والے کی طرف سے، تمہارے پاس الحق (The Truth) آگیا۔ اب تمہیں انسانوں کے خود ساختہ فریب انگیز نظاموں کی پیروی چھوڑ دینی چاہیئے۔ عالمگیر انسانیت کے نام اس رسولؑ کا پیغام یہ تھا کہ:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْ‌ضَ فِرَ‌اشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَ‌جَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَ‌اتِ رِ‌زْقًا لَّكُمْ  ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (2/21-22)

اے نسلِ انسانی! تمہیں چاہیئے کہ تم قوانینِ خداوندی کی محکومی اختیار کرہ۔ اس خدا کے قوانین کی جس نے تمہیں اور تمہارے آباؤاجداد کو پیدا کیا اور کائنات کی اس قدر تخریبی قوتوں کے علی الرغم نسلِ انسانی کو مختلف مراحل سے گزارتے ہوئے اس مقام تک لے آیا۔ بس یہی طریق ہے جس سے تم راستے کے خطرات سے محفوظ رہ سکوگے۔

یہ حفاطت تمہیں خدا کے عالمگیر نظامِ ربوبیت کی رُو سے مل سکےگی جس کے مطابق اس نے تمہارے لیے زمین میں ٹھکانے کا سامان پیدا کردیا۔ اوپر فضا میں کرّے بکھیر دئیے۔ پھر ایسا انتظام کردیا کہ آسمان سےپانی برسے جس سے تمہارے لیے سامانِ رزق پیدا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام سامانِ زیست تمہیں خدا کی طرف سے بلا مزدومعاوضہ ملا ہے۔ اس پر ملکیت خدا ہی کی ہے۔ تمہیں صرف اس کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ لہٰذا، تم ایسا نہ کرنا کہ انسانوں کو اس کا مالک بنادو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یہ، جانتے بوجھتے، خدا کے ساتھ اور خدا کھڑا کردینے کے مرادف ہوگا۔

اسی سورۃ میں ذرا آگے چل کرکہا۔۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْ‌ضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ  ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (2/168) اے نوعِ انسان! تم رزق کے سرچشموں کوتمام انسانوں کے لیے کھلا رکھو اور اس میں سے اپنی اپنی ضروریات کے مطابق نہایت خوشگوار طریق سے کھاؤ پیو۔ اورشیطان کے نقشِ قدم کی پیروی کرکے، انفرادی مفاد پرستیوں کے پیچھے نہ لگ جاؤ۔ وہ تمہارا دوست نہیں، دشمن ہے۔ آپ نے، عزیزانِ من ! اس آیۂ جلیلہ کے الفاظ پر غور فرمایا؟ اس میں کہا یہ گیا ہے کہ جو کچھ زمین سے حاصل ہو، اگر وہ تمام نوعِ انسان کے لیے سامانِ زیست بنتا ہے تو اسے رزقِ حلال و طیب کہا جائے گا۔ اور اگر اس کی یہ شکل نہیں رہے گی تو پھر یہ شیطانی رزق ہو جائے گا۔ اس پیغام کے دینے والے خدا نے، قرآنِ کریم کی سب سے پہلی آیت میں اپنا تعارف ربّ العالمین کہہ کر کرایا (1/1) ۔ یعنی کسی خاس قوم، نسل، گروہ، خاندان، قبیلہ کا نشو و نما دینے والا نہیں، بلکہ عالمگیر انسانیت کو نشوونما دینے والا۔ اس ابتدائی تعارف کے بعد سارا قرآنِ کریم خدا کی اسی ربوبیت عالمینی اور انسانیت ساز تعلیم کی تشریح ہے۔ اس نے خود قرآن کو ذکر‘’ للعالمین کہا ہے (38/87) اور اس کے لانے والے رسول کو رحمۃ‘’ للعالمین (21/107) ۔

وحدتِ انسانیت

آپ نے غور فرمایا کہ قرآن کی تعلیم کس طرح انسانوں کی خود ساختہ گروہ بندیوں کی زنجیروں کو توڑ کر، عالمگیر انسانیت کو اپنے آغوشِ عاطفت میں لاتی ہے، اور ان انسانوں کو ، جنہیں مفاد پرستیوں کی ہوسِ خون آشامی نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا، پھر سے ایک عالمگیر برادری میں منسلک کرنے کی طرف عملی دعوت دیتی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ عدالت ِ خداوندی میں سب سے بڑے مجرم وہ ہیں جن کی روش یہ ہے کہ۔۔۔ يَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ (2/27) جنہیں ملانے کا خدا نے حکم دیا تھا انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں اور یوں انسانوں کی اس بستی کو فساد انگیزیوں کی رزمگاہ بنادیتے ہیں۔ یہ لوگ، یہ نہ سمجھ لیں کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے لیے زندگی کی آسائشیں سمیٹ لیتے ہیں۔ قطعاً نہیں۔ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (13/25) یہ لوگ اپنے آپ کو زندگی کی حقیقی سعادتوں اور خوشگواریوں سے محروم کرتے ہیں۔ انجام کار ان کا ٹھکانا بہت بُرا ہوگا۔ اس نے واضح الفاظ میں بتادیا کہ یاد رکھو! وہی نظریۂ حیات، وہی نظامِ زندگی، وہی عمل اپنے اندر باقی رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو خاندان، قبیلہ، گروہ، نسل، قوم، وطن کی حدود سے آگے بڑھ کر تمام نوعِ انسان کے لیے نفع بخش ہوگا۔ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (13/17) ۔

قرآنِ کریم، عزیزانِ من، خالی وعظ نہیں کہتا۔ نہ ہی خدا کا رسول محض ایک ڈاکیہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کا پیغام پہنچاکر چلا جاتا ہے۔ قرآن جس نصب العین کو پیش کرتا ہے اس کے حصول کا عملی پروگرام بھی دیتا ہے اور اس کا رسول، اس پروگرام پر عمل کرکے، یہ بتااور دکھا دیتا ہے کہ یہ پروگرام نہ تو نا ممکن ا لعمل ہے اور نہ ہی اپنی کامیابی کے لیے کسی ما فوق الفطرت ایجنسی کا محتاج۔ انسانوں کے لیے یہ پروگرام ہے اور انسانوں کے ہاتھوں اس کی تکمیل ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ وہ اس پروگرام کو بروئے کار لاتے وقت ، قدم قدم پراعلان کرتا جاتا ہے کہ أَنَا بَشَرٌ‌ مِّثْلُكُمْ میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک جماعت کی تشکیل کرتا ہے جس کی خصوصیت یہ بتاتا ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ اس جماعت کو نوعِ انسان کی بھلائی کے لیے کھڑا کیا جارہا ہے۔ یہ جماعت عالمگیر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں آئی ہے۔ اس میں رنگ، نسل، قومیت، وطن کی تمیز و تفریق کے بغیر، ہر وہ انسان شامل ہوتا ہے جو وحدتِ خالق کے ایمان کی بنا پر وحدتِ خلق کے مسلک کا پیرو ہونا چاہے۔ قرآنِ کریم نے بتایا ہے کہ وحدتِ انسانیت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ، انفرادی مفاد پرستی کا سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس لیے اس نظام کو مٹاکر، اس کی جگہ عالمگیر نظامِ ربوبیت کا نفاذ اس جماعت کا فریضہ قرار پاتا ہے۔ سورۂ زخرف میں اس حقیقت کو بڑے بلیغ انداز میں بیان کیا گیا ہے، جہاں کہا ہے کہ ۔۔۔ وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ‌ بِالرَّ‌حْمَـٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِ‌جَ عَلَيْهَا يَظْهَرُ‌ونَ وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُ‌رً‌ا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ وَزُخْرُ‌فًا  ۚ وَإِن كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا  ۚ وَالْآخِرَ‌ةُ عِندَ رَ‌بِّكَ لِلْمُتَّقِي نَ (43/33-35) اگر مقصودِ فطرت یہ نہ ہوتا کہ تمام نوعِ انسان کو ایک عالمگیر برادری بننا ہے تو ہم ان لوگوں کو جو ہمارے نظامِ ربوبیتِ عالمینی سے انکار کر کے سب کچھ اپنے لیے سمیٹ لینا چاہتے ہیں، ایسا بے لگام چھوڑ دیتے کہ وہ اتنی دولت جمع کرلیتےجس سے ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں تک چاندی کی ہوجاتیں اور ان کے گھروں کے دروازے اور کرسیاں سونے کی۔ لیکن طبقات میں اس تفاوت سے نوعِ انسان ایک برادری نہ بن سکتی۔ اس لیے ہم ایسی جماعتیں پیدا کرتے رہتے ہیں جو دولت کی اس غلط تقسیم کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں اور اس حقیقت کو عام کرتی ہیں کہ انسانی زندگی کا منتہیٰ و مقصود صرف اسی زندگی کی آسائش و آرائش نہیں، اس کی مستقبل کی زندگی کی فلاح و بہبود بھی ہے۔ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ معاشرہ قوانینِ خداوندی کے تابع رہے۔ نظامِ سرمایہ داری سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس سے واضح ہے کہ نوعِ انسان کی عالمگیر وحدت کے لیے نظامِ ربوبیت کا قیام لاینفک ہے۔ لیکن یہ نظام متشکل نہیں ہوسکتا جب تک ذرائع رزق اس نظام کے کنٹرول میں نہ ہوں۔ یہ ہے وہ مقصد جس کے لیے اس جماعت کی اپنی آزاد مملکت کا وجود ناگزیر ہے۔ا س مملکت کی بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں قوانین سازی کا اختیار کسی انسان یا انسانوں کی جماعت کونہیں ہوتا۔ لہٰذا ، اس میں اس کا امکان نہیں ہوتا کہ کوئی گروہ اپنے مفاد کے تحفّظ کے لیے، اپنی مرضی سے قانون بنا لےگا۔۔۔یہ قوانین، غلط اورصحیح کے پرکھنے کے لیے معیارِ مطلق (Absolute Standard) ہوتے ہیں۔ ان کے اصول و حدود، خدا کے مقرر کردہ اور غیر متبدل ہوتے ہیں جن کا اطلاق تمام انسانوں پر یکساں ہوتا ہے۔ ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ مفکرینِ عالم، وحدتِ انسانیت کے لیے وحدتِ حکومت کا قیام، بنیادی شرط قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے واحد حکومت کس طرح عمل میں آسکتی ہے۔ اس کا طریق قرآن بتاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وحدتِ حکومت کے لیے وحدتِ قانون ناگزیر شرط ہے۔ یعنی ایسے ضابطۂ قوانین کا وجود جس کا اطلاق تمام نوعِ انسان پر یکساں ہو۔ اس قسم کا ضابطہ، انسانوں کا وضع کردہ ہو نہیں سکتا۔ انسان جو قانون بھی مرتب کرےگا، اس میں اس کے رجحاناتِ قلبی اور میلاناتِ ذہنی کی آمیزش ضرور ہوگی۔ اس قسم کی رنگ آمیزی سے بالا صرف خدا کا وضع کردہ ضابطۂ قوانین ہوسکتا ہےجو انسانی جذبات و عواطف سے بالا ہے، اور تمام نوعِ انسان کی نشوونما جس کے پیشِ نظر ہے۔ یہ نظام، وحدتِ قانون کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے اور مختلف اقوام و ممالک کی خود ساختہ لکیروں کو مٹاتا ہوا ایک عالمگیر اُمت کی تشکیل کئے جاتاہے۔ وہ اصول و اقدار جن کی بنیادوں پر یہ نظام استوار ہوتا ہے، ہمیشہ غیر متبدل رہتے ہیں، لیکن ہر زمانے کے انسانوں کو اس کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ ان اصولوں کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے اپنی ضروریات کے مطابق جزئی قوانین خود وضع کریں۔ اس سے نہ تو انسان ایسا سرکش اور بد لگام ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے من مانے قوانین بنا بنا کر دوسروں کو اپنا محکوم بناتا چلا جائےاورنہ ہی ایسا پابہ زنجیر ہوجاتا ہے کہ زمانہ کہیں سے کہیں چلا جائےاور وہ قدامت پرستی اور تقلید کے بندھنوں میں جکڑا رہے۔ یہ اصول و قوانین عقل و فکر کےتقاضوں کی تسکین کرتے ہیں اور انہیں علم و بصیرت کے رُو سے پیش کیا جاتا ہے۔ فطرت کی قوتوں کو مسخر کرنا اس امّت کا اولین فریضہ ہوتا ہے لیکن وہ تسخیرِ فطرت، تخریبِ آدم کے لیے نہیں کرتی، انسانی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے کرتی ہے۔ احترامِ آدمیت اس کا مطمح نگا ہ ہوتا ہے اور ‘‘آدم’’ میں چونکہ مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں، اس لیے اس نظام میں جنس (sex) کی بنا پر انسان اور انسان میں فرق نہیں کیا جاتا۔ اس میں مرد اور عورت دوش بدوش آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی انسان، نہ دوسرے انسان کا محتاج ہوتا ہے، نہ محکوم۔ اقبال ؔ کے الفاظ میں ؎

کس نبا شد در جہاں محتاجِ کس

نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس

 

کعبہ اور حج کی حیثیت

یہ نظام، نوعِ انسان کی فلاح و بہبود کے متعلق مسائل پر غور و فکرکرنے کے لیے وقتًا فوقتًا ….. اجتماعات منعقد کرےگا۔ ان میں مرکزی حیثیت اس اجتماع کو ہوگی جسے حج سے تعبیر کیاجاتا ہے اور کعبہ جس کا مرکز ہے۔ کعبہ اور حج کے متعلق قرآن کا پیش کردہ تصور بڑا غور طلب ہے۔ کعبہ، اینٹ اور پتھر کی اس عمارت کا نام نہیں جومکّہ میں ایستادہ ہے۔ جس طرح آج ہم (مثلاً) جب ‘‘ماسکو’’ کہتے ہیں تو اس سے ایک خاص شہر مراد نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ نمائندگی کرتا ہے اس نظام کی جوروس میں نافذ ہے۔ اسی طرح کعبہ، درحقیقت ترجمانی کرتا ہے اس نظام کی جو نوعِ انسان کو ایک عالمگیر برادری کے رشتہ میں منسلک کرنے کے لیےمتعین کیا گیا ہے۔ دیکھیئے، قرآنِ کریم، اس نکتہ کی وضاحت کیسے دلنشیں الفاظ سے کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا میں ایسے مراکز تو موجود تھےجو کسی خاص قوم، خاص قبیلہ یا خاص مذہب سے نسبت رکھتے تھے، لیکن ایسا کوئی مرکز نہیں تھا جسے خالص انسانیت کا مرکز کہا جاسکے۔ اس قسم کا مرکز کعبہ کو بنایا گیا۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَ‌كًا (3/96) یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں پہلا گھر جسے انسان کا گھر کہا جاسکے، مکہ میں بنایا گیا جو بڑا ہی با برکت ہے۔ اس گھرکی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ مَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (3/97) جو بھی اس میں داخل ہوگیا۔۔یعنی اُس نظام کےسایۂ عاطفت میں آگیا جس کا مرکز وہ گھر ہے، وہ ہر قسم کے خطرات سے محفوظ و مامون ہوگیا۔ لہٰذا، کعبہ نوعِ انسانی کی پناہ گاہ ہے۔ وہ دنیا بھر کے ستائے ہوئے انسان کے لیے امن کا نشیمن ہے۔ دوسری جگہ ہے ۔۔ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا (2/125) اس گھر کو اس لیے بنایا گیا ہے کہ تمام انسان، اپنے اختلافات ختم کرکے، ایک مرکز پر جمع ہوسکیں۔ اور اس طرح آلامِ روزگار سے امن و سلامتی حاصل کرلیں۔ سورۃ مائدہ میں ہے جَعَلَ اللَّـهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ (5/97) کعبہ کو واجب الاحترام مرکز اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس نظام کی رُو سے جس کا یہ مرکز ہے، عالمگیر انسانیت اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکے۔ اسی لیے اسے ‘‘شہرآزاد’’ (Open City) قرار دیا گیا ہے۔ جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ (22/25) اسے وہاں کے رہنے والوں اور باہر سے آنے والوں کے لیے یکساں کھُلا رکھا گیا ہے۔ آپ شاید معلوم ہوگا کہ نبی اکرمؐ کا یہ حکم ہے کہ مکّہ کے مکانات کرایہ پر نہیں دئیے جاسکتے۔ اس مرکزی مقام میں منعقد ہونے والے اجتماعات میں شرکت کی دعوت تمام نوعِ انسان کے لیے عام ہے۔ چنانچہ معمارِ حرم، حضرت ابراہیمؑ جب تعمیرِ کعبہ سے فارغ ہوئےتو ان سے کہا گیا کہ وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ (22/27) تمام نوعِ انسان کو حج کے لیے پکارکر دعوت دے دے۔ اور انسانوں سے کہا گیا کہ ۔۔ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (3/97) جو بھی وہاں تک پہنچنے کی راہ پائیں وہ اس اجتماع میں شریک ہوں۔ لیکن وہ اس اجتماع میں شرکت اس لیے نہ کریں کہ وہاں جا کر کمزور قوموں پر ظلم و زیادتی کی اسکیمیں سوچی جائیں گی۔ یا لوگوں سے قوانینِ خداوندی کے بجائے انسانوں کے خود ساختہ قوانین کی اطاعت کرائی جائےگی۔ جن لوگوں کی یہ ذہنیت اور نیت ہوگی وہ ان اجتماعات میں شریک نہیں ہوسکیں گے (22/25) ۔ شریک ہونا تو رہا ایک طرف، انہیں تو اس کے پاس پھٹکنے تک نہیں دیا جائے گا (9/28; 9/3) ۔ عالمگیر انسانیت کو ان اجتماعات میں شرکت کی دعوت اس لیے دی جائے گی کہ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ (22/28) تاکہ وہ وہاں جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ یہ نظام اُن کے فائدے کے لیا کر رہا ہے۔

 

…………………….o…………………….

 

حق و باطل کی کشمکش

یہ ہے عزیزانِ من! وہ نظام جسے قرآن، وحدتِ انسانیت کے لیے تجویز کرتا ہے۔ اس نظام کو وہ حق کا نظام کہتا ہے اور اس کے بر عکس ہر وہ نظام جو انسانیت میں تفریق کا موجب بنتا ہے، اس کے نزدیک باطل کا نظام ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ کائنات میں حق اور باطل کا ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن یہ ٹکراؤ کمیونزم کے فلسفۂ تاریخ کا ٹکراؤ نہیں جس میں کبھی ایک نظام غالب آجاتا ہے اور کبھی اس کے برعکس دوسرا نظام۔ حق و باطل کے ٹکراؤ میں، حق آہستہ آہستہ باطل پر غالب آتا چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی ایسی جماعت وجودمیں آجاتی ہے جو حق کی علمبردار بن کر رزمگاہِ حیات میں باطل کے مقابل کھڑی ہوجاتی ہے، تو حق کا غلبہ دنوں کے اندر ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو حق کائناتی قوتوں کے رُو سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسے ہماری زبان میں زمانے کے تقاضے کہتے ہیں۔ لیکن اس طرح حق کے غالب آنےکی رفتار بڑی سُست ہوتی ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، خدا کا ایک ایک دن ہمارے حساب و شمار سے ہزار ہزار سال کا ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب انسان، وحی کی راہ نمائی میں جادہ پیما ہوتا ہے تو اس کا سفرِ حیات دنوں میں طے ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ اس کا اتباع نہیں کرتا تو اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی ایک راستہ اختیار کرتا ہے ۔ کچھ دور چلنے کے بعد اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ راستہ غلط ہے، پھر وہ دوسری راہ اختیار کرتا ہے۔ اس طرح وہ عقل کے تجرباتی طریق (Trial and Error) سے، مختلف راستوں کی ٹھوکریں کھاتا ، ایک عرصۂ دراز کے بعد، صحیح منزل پر پہنچتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اپنے رفقا ء کی جماعت کے ساتھ، وحی کی روشنی میں اس راستہ کو اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ نظام، چند دنوں میں قائم ہوگیا، اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح دیکھتے دیکھتے، مختلف ملکوں، نسلوں، قوموں کے افراد ایک ایسی برادری کے رشتے میں منسلک ہوگئے جس میں تفریق و تقسیم کا شائبہ تک نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد، مفاد پرست قوتوں نے پھر سر ابھارا اور اس نظام کی جگہ پھر اُسی نظامِ کہن نے لے لی جس میں انسان اور انسان میں بُعد و مغائرت پیدا ہوگئی۔۔۔۔۔خود مسلمانوں کے اندر مذہبی فرقوں کی تفریق، جسے قرآن نے بہ نصِ صریح شرک قرار دیاتھا، نسلوں کی تفریق، ذات پات کی تفریق، امیر اور غریب کی تفریق، ادنیٰ اور اعلیٰ کی تفریق، حاکم اور محکوم کی تفریق، آجرا ور مستاجر کی تفریق ۔۔ بندہ اور آقا کی تفریق ۔۔ اور یہی نظام مسلمانوں میں آج تک چلا آرہا ہے۔ یاد رکھئیے۔ یہ نظام غیر قرآنی ہے۔ اسے اسلام کے ساتھ دورکا بھی واسطہ نہیں۔

 

 

 

جس کا جی چاہے اسے اپنالے

لیکن اگر یہ نظام مسلمانوں کے ہاں باقی نہیں رہا تو اس سے عالمِ انسانیت کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس نظام کے اصول اور اسے متشکل کرنے کا پروگرام قرآن کے اندر موجود اورمحفوظ ہے اور جس طرح صحیفۂ فطرت کے حقوق کسی خاص قوم کے حق میں محفوظ نہیں، اسی طرح قرآن پر بھی کسی خاص قوم کی اجارہ داری نہیں۔ یہ ذکر‘’ للعالمین ہے، بصائر للناس ہے۔ یہ تمام نوعِ انسانی کے لیے کھُلا ہوا صحیفہ ہے۔ جس کا جی چاہے اسےاپنالے۔ حالات بتارہے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے مقابلہ میں مغربی ممالک کی غیر مسلم اقوام میں اسے اپنانےکے رجحانات زیادہ ہیں۔ مسلمان اپنے مروجہ نظام کو حق کا نظام سمجھ کر ایک گہرے فریب میں مبتلا ہے۔

--- جس قوم پر بھی مذہبی پیشوائیت کا غلبہ ہوگا اس کی یہی حالت ہوگی --- لیکن اقوامِ مغرب اپنے ہاں کے مروجہ نظام ہائے حیات سے بُری طرح تنگ آچکی ہیں۔ اور (جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں) وہ ایک ایسے نظام کی تلاش میں مضطرب و بیتاب نظر آتی ہیں جو وحدتِ انسانیت کا ضامن بن سکے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس قسم کا نظام، قرآن کے علاوہ اور کہیں سے نہیں مِل سکتا۔ اس لیے خود زمانے کے تقاضے انسان کو اس طرف لا رہے ہیں۔ اس کی نشاندہی بھی خود قرآن ہی نے کردی ہوئی ہے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھ لیا، وحدتِ انسانیت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ دیکھیئے، قرآنِ کریم اس آنے والے دور کی نشاندہی کرتا ہوا، اس ضمن میں کیاکہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُ‌ونَ (83/1-3) یاد رکھو! تاجرانہ ذہنیت اور سرمایہ دارانہ نظام کا انجام تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اس ذہنیت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دوسروں سے اپنے واجبات پورے پورے لیے جائیں لیکن جب ان کے واجبات دینے کا وقت آئے تو ترازو میں ڈنڈی مار دی جائے۔ دوسروں سے کام پورا پورا لیا جائے لیکن اس کا م کا معاوضہ کبھی پورا نہ دیا جائے۔ محنت کرنے والوں کو کم از کم دیا جائے اور خود زیادہ سے زیادہ نفع کمایا جائے۔ چیزوں ہی کو نہیں، بلکہ خود انسانوں کو تولتے اور ناپتے وقت بھی یہی خیال غالب رہے اور کوشش کی جائے کہ ان کی صلاحیتیں دبی، سمٹی، سکڑی اور بندھی رہ جائیں۔ انہیں اتنا ہی ابھرنے دیا جائے جتنی وہ سرمایہ داروں کے منافع کے لیے مفید ہوں۔ انہیں اس سے زیادہ آزادی دی ہی نہ جائے۔ اِس کے بعد کہا أَلَا يَظُنُّ أُولَـٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ (83/4) کیا ان لوگوں کو اس کا خیال نہیں آتا کہ یہ نظام ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ وہ وقت آئے گا جب انہیں انسانیت کے راستے سے ہٹا دیا جائےگا۔ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَ‌بِّ الْعَالَمِينَ (83/5-6) یہ اس انقلاب عظیم کے وقت ہوگاجب انسانیت خدا کے عالمگیر نظامِ ربوبیت کے قیام کے لیے اُٹھ کھڑی ہوگی۔ اس دور کی بہت سی نشانیاں قرآن میں مذکور ہیں۔ مثلاً کہا گیاہے کہ إِذَا الْعِشَارُ‌ عُطِّلَتْ (81/4) جب اونٹ جیسا مفید جانور، تیز رفتار ذرائع سفر کی ایجاد سے بے کار ہوکررہ جائے گا۔ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَ‌تْ (81/5) جب پسماندہ اور وحشی اقوام میں بھی اجتماعی زندگی کا احساس بیدار ہوجائے گا۔ وَإِذَا الْبِحَارُ‌ سُجِّرَ‌تْ (81/6) جب سمندر جہازوں اور کشتیوں سے معمور ہو جائیں گے۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (81/7) جب آبادیاں یہاں سے وہاں تک ملتی ہوئی چلی جائیں گی۔ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَ‌تْ (81/10) جب کتابیں، مجلات، اخبارات بہت زیادہ پھیل جائیں گے۔ وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ (81/11) جب آسمانی کرّوں پر پڑے ہوئے پردے اُٹھتے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْأَرْ‌ضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (81/3-4) جب ذرائع رسل و رسائل کے عام ہوجانے سے زمین پھیل جائے گی اور اپنے معدنی ذخائر کو باہر نکال پھینکے گی اور اس طرح اندر سے خالی ہو جائے گی۔ یہ تو خارجی کائنات میں رونما ہونے والے انقلابات کی نشاندہی ہے۔ خود انسانی دنیا کے اندر بھی ایک عظیم انقلاب آئے گا۔ اور وہ یہ کہ ….. وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (81/8-9) جب عورت کہ جسے مردوں کے استبداد نے زندہ در گور کر رکھا ہے، انسانیت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی اور وہاں یہ سوال پوچھا جائے گا کہ اسے بالآخر کس جرم کی پاداش میں مدفون رکھا گیا تھا۔ یعنی اس دور میں صرف زمین کے مدفون خزانے ہی اُبھر کر باہر نہیں آئیں گے، انسانوں کے ہاتھوں کی دفن کردہ مظلوم عورت بھی دوبارہ زندہ ہوکر سطح انسانیت پر آجائے گی۔ یہ ہے وہ دور جس کے متعلق قرآنِ کریم نے کہا ہے کہ انسانیت، خدا کے عالمگیر نظامِ ربوبیت کے لیے اُٹھ کھڑی ہوگی۔ اور نظامِ سرمایہ داری الٹ جائے گا۔

 

 

کمیونزم کے ذریعے نہیں

لیکن یہ کچھ کمیونزم کے فلسفۂ حیات کی رُو سے نہیں ہوگا جس میں انسان کے لیے وہ جذبۂ محرکہ نہیں ہوتا جس سے وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرے اورکم از کم اپنے لیے رکھ کر، باقی دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے برضا و رغبت دے دے۔ نہ ہی ان کے ہاں مستقل اقدار و مطلق معیارِ حق و باطل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ اشتراکی نظام میں یہ کچھ Regimentation کے ذریعہ کرنا پڑتا ہے جس سے فرد کی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے۔ قرآنِ کریم جو نظام لاتا ہے اس میں اتنا ہی نہیں ہوتا کہ ہر فرد کی ضروریاتِ زندگی پوری ہوتی رہتی ہیں بلکہ اس میں کیفیت یہ ہوتی ہے لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ (82/19) کسی فرد کا دوسرے فرد پر کس قسم کا اختیار و اقتدار نہیں ہوتا۔ اس میں ہر فرد کو مقامِ آدمیت نصیب ہوتا ہے اور وہ شرفِ انسانیت سے بہرہ یاب و سرفراز ہوتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس نظام میں آئین و قوانین بھی باقی نہیں رہتے اور معاشرہ (کمیونزم کے فلسفہ کے مطابق) لا مملکتی اور لا قانونی ہوجاتا ہے۔ نہیں۔ اس میں لا قانونیت نہیں پھیلتی۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ وَالْأَمْرُ‌ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ (82/19) اس میں تمام معاملات، خدا کے متعین کردہ قوانین کے مطابق طے پاتے ہیں۔ اس میں اقتدار اعلیٰ (Sovereignty) انسانوں کا نہیں، خدا کے غیر متبدل قوانین کا ہوتا ہے۔ اس میں مستقل اقدار اور مطلق معیار حق و باطل کی کار فرمائی ہوتی ہے۔ یوں اس میں نہ کوئی انسان دوسرے انسان کا محتاج ہوتا ہے نہ محکوم۔

کس دریں جا سائل و محروم نیست

عبد و مولا حاکم و محکوم نیست

یہ ہوگا وہ دور جس کے متعلق کہا کہ ۔۔ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْ‌ضُ غَيْرَ‌ الْأَرْ‌ضِ وَالسَّمَاوَاتُ (14/48) اُس وقت یہ زمین بدل جائے گی۔ یہ آسمان بدل جائے گا۔ وَأَشْرَ‌قَتِ الْأَرْ‌ضُ بِنُورِ‌ رَ‌بِّهَا (39/69) اورزمین اپنے نشو و نما دینے والے کے نور سے جگمگا اُٹھے گی۔

 

آخری سہارا

یہ ہے وہ نظامِ ربوبیت، جو انسانیت کا آخری سہارا ہے اور جس سے، جنت سے نکلا ہوا آدم، پھر سے جنت کو پالے گا۔ قرآنِ کریم کی رُو سے انسان کا انجام تباہی نہیں، سرفرازی و سر بلندی ہے، اس کے سفرِ حیات کا مآل، پستیوں کے عمیق غار نہیں، بلکہ لَتَرْ‌كَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ (84/19) اس شہسوار کو بلند سے بلند تر مقامات کر طرف چڑھتےچلےجانا ہے۔

عروجِ آدمِ خاکی کے منتظر ہیں تمام

یہ کہکشاں، یہ ستارے، یہ نیلگوں افلاک

عصرِ حاضر کی بے پناہ تاریکیوں میں قرآن کا پیغام ہی وہ روشنی کا مینار ہے جو طوفانوں میں گھری ہوئی کشتیٔ انسانیت کو ساحلِ مراد کی نشاندہی کرسکتا ہے۔ اقبال کی آنکھ نے قرآنی بصیرت کی رُو سے بہت پہلے دیکھ لیا تھا کہ ‘‘ جنگِ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کردیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت، زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کررہی ہے’’۔ اقبال نے اس نئی دنیا کا ایک دھندلا سا خاکہ دیکھا تھا لیکن اب زمانے کے تقاضوں سے وہ دھند آہستہ آہستہ چھٹ رہی ہے۔ اور وہ دنیا جسے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں تعمیر کر رہی تھی، اُفقِ کائنات سے اُبھر کر سامنے آرہی ہے ۔۔۔انسان کا موجودہ عالمگیر اضطراب، مایوسیوں کا پیغامِ مرگ نہیں، امیدوں کی نشیدِ حیات ہے۔ یہ وہ خزاں ہے جو آنے والی بہار کے لیے طائر پیش رس ہوتی ہے۔ یہ وہ آخری شب کی تاریکی ہے جس کے متعلق غالب نے کہا تھا کہ

مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

شمع کشتند و زخورشید نشانم دادند

دیکھنا یہ ہے کہ اس خوشیدِ جہاں تاب کی پہلی کرنوں کی جبیں بوسی کی سعادت کس خطّہ زمین کے حصے میں آتی ہے۔ جس کے نصیب میں یہ سعادت ہوگئی، اسی کی قسمت میں نوعِ انسان کی امامت (لیڈر شپ) ہوگی۔

اور یہی ہے طلوعِ سحر کی وہ یقین آفریں امید جس کی وجہ سے، میں بھی یہ کہتے ہوئے اس پیکر محبوبیت کا دامن تھامے بیٹھا ہوں کہ

تیرے سوا کوئی شائستہ وفا بھی تو ہو !!

میں تیرے در سے جو اٹھوں تو کس کے در جاؤں

والسلام

پرویز

 

…………………….*…………………….

کمپوزنگ: محمد افتحارالحق

 

Re-typed by MIH.